Friday, 2 March 2018

مہمان مہمان کا اکرام کر نا سیکھئے

🌷🍃🌿🌷🍃🌷🌿🌷🍃🌿🌷
             ┄┅════❁❁═════┅┄
♻ بســـــــــــم اللـــــہ الرحـــمن الرحیــم
┄┅════❁❁═════┅┄                🌺 ❁مہمان کا اکرام کر نا سیکھئے ❁🌺   
  ┅◐══◐══♡◐♡══◐══◐┅
✍ راہ ھدایت
──•••─↠❀🌸❀↞──•••─
🍃🌸🍃


                                             

*اگرمسلمان بھائی مہمان بن کر آئے تواسکی عزت کرنا:*

💖 *مہمانی  تین دن تک*💗
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *"جوشخص اللہ وآخرت پرایمان رکھتاہو اسے اپنے مہمان کااحترام کرناچاھئے، ایک دن رات توعمدہ اوربہتر کھانے سے اسکی خاطر داری کرنی چاھئے. مہمانی  تین دن تک ہے، اسکے بعد بھی اگر مہمان کھاتا رہے تووہ میزبان کیطرف سے صدقہ وخیرات ہے. مہمان کے لئے جائز نہیں ھیکہ وہ (تین دن سے زیادہ)میزبان کے پاس قیام کرکے اسے اورتنگی میں ڈالے"* (بخاری، کتاب الادب )

مہمان کا احترام کرنے کے معنی یہ ھیں کہ میزبان خندہ پیشانی سے اسکا استقبال کرے، پہلے دن میزبان کواپنی استطاعت کےمطابق نہایت عمدہ اورپرتکلف کھانے سے اپنے مہمان کی تواضع کرنی چاھئے، دوسرے اورتیسرے دن اسے وہ کھانا کھلائے جوگھر میں تیار ہوتا رہا. وہ شخص جو تین دن کے بعد بھی اپنے میزبان کے پاس رہتا ہے وہ مہمان کی حیثیت سے ضیافت نہیں کھاتا بلکہ ایک مسافر کی حیثیت سے صدقہ وخیرات کھاتا ہے -


مہمان کے آنے پر خوش ہوا جائے، خوشی کا اظہار کیا جائے، انہیں ان کے مرتبہ سے بڑھ کر خوش آمدید کہا جائے-اسلام
مہمان کی خاطر مدارات اپنی حیثیت سے بڑھ کر کی جائے، حتی کہ اسراف کیا جائے، کیونکہ مہمان کے سامنے پیش کی جانے والی چیزوں کا اللہ کے ہاں حساب نہ ہو گا-
مہمان اپنے ساتھ اللہ کی رحمت لاتا اور میزبان کی تمام بلایات، تکالیف، امراض، پریشانیاں، مصیبتیں اور نحوستیں آپنے ساتھ لے جاتا ہے-
──•••─↠❀🌸❀↞──•••─




*مہمان نوازی ۔ جس سے خدا خوش ہو گیا*

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کو مہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس حکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے۔ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو۔ اس نے عرض کیا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ وہ اسے لے کر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میں کچھ کھانے کے لئے موجود ہے اس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آ گیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہںں اور بچوں کو کسی طرح تھپکا کر میں سلا دیتی ہوں۔ صحابی نے کہا یہ تو ہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے بیوی نے پوچھا وہ کیا۔ خاوند کہنے لگا۔ جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھرہم کیا کریں گے۔ (اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا) بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کر دو۔ اور میں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اٹھوں گی اور چراغ کو بجھا دوں گی تا کہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دستر خوان بچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو۔ بیوی اٹھی اور اس نے چراغ کو بجھا دیا۔ جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سلگاؤ اور چراغ روشن کرو۔ بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں۔ اس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو اس نے کہا اس وقت ہمسائے کو کون جا کر تکلیف دے۔ بہتر یہی ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے۔ مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ خاوند اور بیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہوا تھا اس لئے مہمان تو کھاتا رہا اور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ خیر کھانا ختم ہوا اور مہمان چلا گیا اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دے دی۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا لوگو کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہوا۔ صحابہ ؓ نے کہا: یا رسول اللہ ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپؐ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا۔ پھر آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیوں نہ ہنسے۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے۔

*(سیر روحانی جلد اول صفحہ 162۔ 163)*
🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸🍃🌸