Sunday, 1 September 2019

بےانصافی

                         

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ، ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا:
”کس قدر ویران گاؤں ہے۔؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا ، اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی ، کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو ؟
طوطی پریشان ہوکر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ، میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں ۔
الو یہ سن کر ہنسا ۔
اور کہا :
یہ تم کیا کہہ رہی ہو تم تو میری بیوی ہو ،
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی ، دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا:
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہو اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“۔ طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو ۔
یہ اب میری بیوی کہاں ہے۔
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے۔ بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے ......!!

Tuesday, 26 February 2019

اللہ تعالی ہمیں آزماتے ہیں ________________

*🌹 ہمارے دربار میں کسی کو چوں چرا کا حق نہیں 🌹*
                       *تذکرہ* شاہ علم اللہ نامی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دو ماہی گیر ایک کافر، ایک مومن *دجلہ* کے کنارے مچھلی کے شکار کے لئے گئے۔ مومن ہر مرتبہ *اللہ* کا نام لے کر اپنا جال دریا میں ڈالتا تھااور ہر مرتبہ اس کا جال خالی واپس آتا تھا اور کافر ہر بار اپنے باطل معبودوں کا نام لیکر جال ڈالتا تھا ،اور جب اس کو باہر نکالتا تھا تو اس میں مچھلیاں ضرور ہوتی تھیں ۔ شام کے وقت صرف ایک مچھلی مومن کے جال میں آئی وہ بھی جال سے باہر نکل گئ،کافر کے پاس مچھلیوں کا ڈھیر ہوگیا اور مومن ماہی گیر اس پر بہت شرمندہ اور حیرت زدہ تھا ۔ اس کافر نے یہ حال دیکھ کر کہا،خالی ہاتھ واپس نہ جاو ۔ یہ مچھلیاں ہمارے گھر تک پہنچا دو ،اس کی مزدوری تمہیں مل جائے گی۔  فرشتوں کو اس مومن ماہی گیر کے حال پر بہت رحم آیا ،اور انہوں نے خدا کے حضور میں عرض کیا کہ *بار الہی !*  اس میں کیا حکمت ہے ؟ کہ آپ کے نام پر جو جال ڈالا جاتا تھا وہ خالی نکلتا تھا ،اور معبودان باطل کے نام پر جو جال کافر ڈالتا تھا اس میں خوب مچھلیاں آجاتی تھیں ۔ *حق تعالی* کا ارشاد ہوا کہ مومن جتنی بار جال پانی میں ڈالتا تھا اور اس کے خالی آنے پر ناامید، پر ملول و شکستہ خاطر ہوتا تھا ،اتنی ہی بار میں اس کی شکستہ دلی کی وجہ سے بہشت میں اس کو نیا درجہ عطا کرتا تھا ۔ اور جب وہ کافر بتوں کے نام پر جال ڈالتا تھا اور مچھلیاں آنے پر خوش ہوتا تھا تو اس کی خوشی کے بقدر جہنم میں ایک اور درجہ دینے کا حکم دیتا تھا ۔

     *ما پروریم دشمن و ما می کشیم دوست*   
   *کس رارسد  نہ چوں و چرا درحضور ما*   

                 *اس* کے بعد *حضرت شاہ علم اللہ* نے فرمایا :کہ ایک *حدیث* میں آتا ہے کہ *جب کوئی غریب مسلمانوں بازار جاتا ہے اور بازار کی نعمتیں دیکھتا ہے لیکن اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خرید نہیں سکتا اور اس پر صبر کرتا ہے ،تو اللہ تعالی اس کے صبر کے معاوضہ میں جنت میں اس کو نیا درجہ عطا فرماتے ہیں ۔ ( *تذکرہ شاہ علم اللہ ص : ۹۵*)

               *اس* وقت ہندوستانی مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی حالت کچھ اسی مسلم ماہی گیر ہی (مچھیرے) کی طرح ہے اور غیر مسلموں اور باطل طاقتوں کی مثال اس کافر ماہی گیر کی طرح ہے ۔ ہم مسلمانوں کو ہر محاذ پر باوجود ایمان والے ہونے کے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ باطل کو ہر محاذ پر کامیابی ہی کامیابی مل رہی ہے اور باطل کے خیمہ میں اس کامیابی پر  خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ۔ ہم مسلمان ملول اور شکستہ ہیں اور باطل کے خیمہ میں جشن کا سماں اور ماحول ہے ۔ یقینا ہم مسلمانوں کی بے بسی پر، شکست خوردگی اور ملول و افسردگی پر فرشتوں کو ترس آتا ہوگا اور وہ بھی اس کی وجہ اللہ سے دریافت کرتے ہوں گے اور ہمیں امید ہے کہ جس طرح اس مسلم ماہی گیر کا اللہ تعالی ہر بار درجہ بڑھا رہا تھا یقینا ہم لوگوں کے درجات بھی اللہ تعالی بلند فرما رہے ہوں گے ۔ بس ہم مسلمانوں کو اپنا یقین بنانا ہوگا اور اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی فکر و کوشش کرنی ہوگی ۔
               اور ساتھ اس ارشاد خداوندی پر سچا اور پکا یقین رکھنا ہوگا کہ *ولا تھنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین*  *شکستہ دل مت ہو اور غمزدہ مت ہو تمہیں سر بلند ہو گے اگر تم سچے مومن ہو*
           *لیکن* اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر  بیٹھ جائیں اور اصلاح احوال اور باطل کی ریشہ دوانیوں کی کاٹ کی کوئ فکر نہ کریں ۔ ہرگز نہیں ہمیں تدبیر تو کرنی ہی پڑے گی ۔ جس طرح کے وہ بیچارہ مومن مچھیرا شام تک جال ڈالتا ہی رہا محرومی اور ناکامی کی وجہ سے بیٹھ نہیں گیا ۔ خدا کرے کہ ہم ان حقائق کو سمجھ لیں ۔ اور اغیار کے مکر و فریب   اس کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ سامانیوں کے لئے مناسب اور موثر تدبیر کرتے رہیں ۔