*الحـــدیـــــث :*
*🌳دنیا کی دولت بطریق حلال اور اچھی نیت سے کمائے تو قیامت کے دن اسکا چہرا چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن🌳*
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا..
"جو شخص دنیا کی دولت بطریق حلال اس مقصد سے حاصل کرنا چاہے تاکہ اسکو دوسروں سے سوال نہ کرنا پڑے اور اپنے اہل و عیال کیلئے روزی اور آرام و آسائش کا سامان مہیا کرسکے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھی وہ احسان اور اچھا سلوک کرسکے تو قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور میں اس شان کیساتھ حاضر ہوگا کہ اسکا چہرا چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اور چمکتا ہوگا..
🌳رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.🌳
اور جو شخص دنیا کی دولت حلال ہی ذریعہ سے اس مقصد سے حاصل کرنا چاہئے کہ بہت بڑا مالدار ہو جائے اور اس دولتمندی کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنی شان اونچی دکھا سکے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کیلئے داد و دہش کرسکے تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالی کے حضور اس حال میں حاضر ہوگا کہ اللہ تعالی اس پر سخت غضب ناک ہوگا.." (شعب الایمان للبیہقی و حلیہ ابی نعیم)
تشریح :----------- معلوم ہوا کہ اچھی نیت سی اور نیک مقصد کیلئے دنیا کی دولت حلال ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا , نہ صرف یہ کہ جائز اور مباح ہے بلکہ وہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ قیامت کے دن ایسا شخص جب اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگا تو اس پر اللہ کا خاص الخاص فضل و کرم ہوگا جسکے نتیجے میں اسکا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اور منور ہوگا..
لیکن اگر دولت کمانے سے غرض صرف بڑا دولت مند بننا اور دنیا کی بڑائی حاصل کرنا اور لوگوں کیلئے بڑے بڑے کام کرنا ہو تو یہ دولت کمانا اگرچہ حلال ہی طریقے سے ہو تب بھی ایسا گناہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص پر اللہ تعالی کا سخت غضب ہوگا اور اگر ناجائز اور حرام طریقوں سے ہو تب تو سخت ترین وبال ہے..
بحوالہ معارف الحدیث، جلد۲، حدیث۷۳، صفحہ۷۸..
*🍒_عبادت گذار عابداور شیطان_🍒*
*_بہترین واقعه سبھی حضرات ضرورپڑھیں اور آگــے بھی شئیرکریں.........._*
_ایک گاوں میں ایک نیک آدمی تھا ، وہ اللہ تعالی کی بہت عبادت کرتا تھا اور کفر و شرک کو ناپسند کرتا تھا ۔ اس گاوں میں ایک درخت تھا ، گاوں کے کچھ لوگ اس درخت کی پوجا کرتے تھے ، کچھ لوگوں نے اس کی خبر اس نیک آدمی کو دے دی ، وہ بہت غصہ ہوا اور اس درخت کو کاٹنے کے لیے نکل پڑا ۔ راستہ میں اس کی ملاقات ایک شیطان سے ہوئی ، وہ شیطان اس وقت انسان کی شکل میں تھا ، شیطان نے اس سے پوچھا : ارے میاں ! کہاں جارہے ہو ؟ اس نے جواب دیا : فلاں جگہ ایک درخت ہے ، لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں ، اس کو کاٹنے کے لیے جارہا ہوں ۔ شیطان نے اس کو پٹی پڑھائی : بھائ ! تم تو اس کی پوجا نہیں کرتے ہو ، پھر تمہارا کیا بگڑ رہا ہے ؟ اس کو مت کاٹو ۔ اس آدمی نے جواب دیا : ضرور کاٹوں گا ۔ اس بات کو لے کر دونوں میں لڑائی ہو گئ ، اس نیک آدمی نے شیطان کو زمین پر پٹخ دیا ۔ شیطان نے کہا : تم مجھے چھوڑ دو ، میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں ؛ چنانچہ اس نے شیطان کو چھوڑ دیا ، پھر شیطان نے اس سے کہا : دیکھو ، سچی بات تو یہی ہے کہ درخت کاٹنے سے تم کو کوئ فائدہ نہیں ہوگا ؛ اس لیے تم درخت مت کاٹو ، ہم تم کو روزانہ دو دینار (سونے کے دو سکے) دے دیا کریں گے ، اس میں تمھارا فائدہ ہے ۔ اس آدمی نے کہا : وہ سکے ہمیں کہاں ملیں گے ؟ شیطان نے کہا : جب صبح کو سوکر اٹھوگے ، تو اپنے تکیہ کے نیچے سے لے لینا ، اس پر وہ آدمی راضی ہو گیا اور وہیں سے واپس ہو گیا ۔ جب صبح ہوئ ، تو سچ مچ اس کو تکیہ کے نیچے سے دو دینار (سونے کے دو سکے) ملے ، وہ بہت خوش ہوا ؛ لیکن اگلی صبح اس کو تکیہ کے نیچے کچھ نہیں ملا ، پھر اس کو غصہ آگیا اور درخت کو کاٹنے کے لیے نکل پڑا ، راستہ میں اسی شیطان سے دوبارہ اس کی ملاقات ہوئ ، اس نے پوچھا : ارے میاں ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا : اسی درخت کو کاٹنے کے لیے جا رہا ہوں ، شیطان نے کہا : تم اس کو نہیں کاٹ سکتے ۔ اور یہ کہہ کر شیطان نے اس آدمی کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر چڑھ کر اس کا گلا دبانے لگا ۔ پھر شیطان نے اس آدمی سے کہا : جانتے ہو ؟ میں شیطان ہوں ؟ پہلی مرتبہ جب تم درخت کاٹنے کے لیے نکلے تھے ، تو تمھارا مقصد اللہ کو خوش کرنا تھا ؛ اس لیے تم نے مجھے پٹخ دیا تھا ، اب تو تم اس وجہ سے درخت کاٹنے نکلے ہو کہ تمھیں دو دینار نہیں ملے ، اب تمھاری نیت بدل گئ ہے ؛ اس لیے آج تمھارا یہ حال ہوا_ ۔ [ تلبیس ابلیس : ١/ ٣٠ ٬ ٣١ ]
اس کو کہتے ہیں”"جیسی نیت ویسی برکت“ اس لیے دیکھو ، جو بھی کام کرو ، اللہ تعالی کو راضی اور خوش کرنے کے لیے کرو ، اس میں کسی طرح کی کوئ لالچ نہ رکھو ، اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں ۔_
No comments:
Post a Comment