Thursday, 20 December 2018

صبر کا دامن ہرحال میں تھامے رکھیے_______


*🌳 بے صبری اور حرام کمائی  🌳*
ایک صاحب سفر میں تھے۔کہ راستے میں نماز کاوقت ہوگیا ایک آبادی میں داخل ھوئے اور نماز کے لئے مسجد کا پتا کیا تو قریب ہی مسجد مل گئی۔
جب نماز کے لئے مسجد میں جانے لگے تو خیال آیا کہ اپنی سواری یعنی گھوڑا کس کے حوالے کروں کہیں ایسا نہ ھو کہ میری غیر موجودگی میں کوئی میری سواری اور اس پر لگی بیش قیمت زین (جو کہ گھوڑے کی کمر پر باندھتے ھیں) چوری کر لے۔

ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ ان کی نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ان کی ہی طرف دیکھ رہا تھا لڑکے کو اشارہ کر کے بلایا اور کہا کہ بیٹا میں مسافر ھوں نماز کا وقت ھو رہا ھے کیا میرے نماز ادا کرنے تک تم میرے سامان اور سواری کی حفاظت کر سکتے ھو ؟

لڑکے نے کہا ! کیوں نہیں آپ بے فکر ھو کر نماز کے لئے جائیں میں آپ کے سامان کے پاس کھڑا ھوں۔ وہ صاحب بہت خوش ھوئے اور نماز کے لئے مسجد میں چلے گئے.... جب نماز پڑھ کر باہر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ۔۔۔۔۔ نا صرف وہ لڑکا غائب تھا بلکہ گھوڑے کی زین بھی غائب تھی۔
خیر صبر کر کے بازار کا رخ کیا کہ نئی زین خرید لوں....ایک دکان پر رکے تو دیکھا کہ ان کی وہی زین اس دکاندار کی دکان میں لٹکی ھوئی ھے۔
انھوں نے دکاندار سے کہا کہ یہ زین تمھارے پاس کہاں سے آئی؟

اس نے جواب دیا کہ ابھی ایک لڑکا 2 درہم میں بیچ کر گیا ھے۔
ان صاحب نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور بولے ۔۔۔۔۔۔ارے اللہ کے بندے تھوڑا صبر کرلیتا تو یہ 2 درہم حرام نہ ھوتے۔

دکاندار نے پوچھا تو بتایا کہ میں نے نماز میں ہی سوچ لیا تھا کہ نماز پڑھ کر اس لڑکے کو 2 درہم دوںگا مگر افسوس ۔

جلد بازی کی وجہ سے اس نے اپنی کمائی حرام کر لی ۔۔۔۔۔۔اگر صبر کرلیتا تو یہی 2 درہم اسے ملتے مگر جائز طریقے سے ملتے
انسان کو رزق اتنا ہی ملتا ھے جو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا ۔
حرام یا حلال طریقہ سےحاصل کرنا ہمارے اختیار میں ھے .. اللہ اکبر

سبق:- اس لڑکے کے مقدر میں دو درہم لکھے گئے تھے جو اسے ہر حال میں ملنے تھے اگر وہ صبر کر لیتا تو وہ اسے حلال (ہدیہ) طریقے سے حاصل کرسکتا تھا مگر اس نے صبر کا دامن چھوڑ کر چوری کرکے اپنے مقدر میں لکھے (جو اسے ہر حال میں ملنے تھے) دو درہم حرام طریقے سے کمائے، اسلئے ہمیں ہر حال میں صبر سے کام لیتے ہوئے رزق حلال کی جستجو میں رہنا چاہیئے۔

*🌹 ایک عورت کا صبر اپنی اولاد کے مر جانے پر 🌹*
ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا "اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اِس گناہگار بندی سے کیا تقصیر ہوئی کہ سال میں نو مہینے خونِ جگر دے کر اِس بچّے کی تکلیف اُٹھاتی ہوں اور جب اُمید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اُس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ آئے دن میرا دل غم کے حول کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچّہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔ اے دُکھی دلوں کے بھید جاننے والے.! مجھ بےنوا پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔" روتے روتے اُسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پُربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اُس عورت کا نام لکھا ہُوا تھا۔ باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عورت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اُس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اُس کے تمام بچّے بھی اُسی محل میں موجود تھے جو اُسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھُوم اُٹھے تھے۔ پھر اُس عورت نے ایک غیبی آواز سُنی کہ "تُو نے اپنے بچّوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا, یہ سب اُس کا اجر ہے۔" خوشی کی اِس لہر سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اُس کا سارا ملال جاتا رہا اور اُس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا "یا الہٰی اب اگر تُو اِس سے بھی زیادہ میرا خُون بہا دے تو میں راضی ہوں۔ اب اگر تُو .  سال بھی مجھے اِسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔"
درسِ حیات: انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز انسان کو اللّٰہ کے قریب کرتی ہے۔
حکایت نمبر 63, مترجم کتاب "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا جلال الدین رومی رح

No comments:

Post a Comment