Sunday, 1 September 2019

بےانصافی

                         

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ، ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا:
”کس قدر ویران گاؤں ہے۔؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا ، اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی ، کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو ؟
طوطی پریشان ہوکر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے ، میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں ۔
الو یہ سن کر ہنسا ۔
اور کہا :
یہ تم کیا کہہ رہی ہو تم تو میری بیوی ہو ،
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی ، دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا:
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہو اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“۔ طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو ۔
یہ اب میری بیوی کہاں ہے۔
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے۔ میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے۔ بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے ......!!

Tuesday, 26 February 2019

اللہ تعالی ہمیں آزماتے ہیں ________________

*🌹 ہمارے دربار میں کسی کو چوں چرا کا حق نہیں 🌹*
                       *تذکرہ* شاہ علم اللہ نامی کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دو ماہی گیر ایک کافر، ایک مومن *دجلہ* کے کنارے مچھلی کے شکار کے لئے گئے۔ مومن ہر مرتبہ *اللہ* کا نام لے کر اپنا جال دریا میں ڈالتا تھااور ہر مرتبہ اس کا جال خالی واپس آتا تھا اور کافر ہر بار اپنے باطل معبودوں کا نام لیکر جال ڈالتا تھا ،اور جب اس کو باہر نکالتا تھا تو اس میں مچھلیاں ضرور ہوتی تھیں ۔ شام کے وقت صرف ایک مچھلی مومن کے جال میں آئی وہ بھی جال سے باہر نکل گئ،کافر کے پاس مچھلیوں کا ڈھیر ہوگیا اور مومن ماہی گیر اس پر بہت شرمندہ اور حیرت زدہ تھا ۔ اس کافر نے یہ حال دیکھ کر کہا،خالی ہاتھ واپس نہ جاو ۔ یہ مچھلیاں ہمارے گھر تک پہنچا دو ،اس کی مزدوری تمہیں مل جائے گی۔  فرشتوں کو اس مومن ماہی گیر کے حال پر بہت رحم آیا ،اور انہوں نے خدا کے حضور میں عرض کیا کہ *بار الہی !*  اس میں کیا حکمت ہے ؟ کہ آپ کے نام پر جو جال ڈالا جاتا تھا وہ خالی نکلتا تھا ،اور معبودان باطل کے نام پر جو جال کافر ڈالتا تھا اس میں خوب مچھلیاں آجاتی تھیں ۔ *حق تعالی* کا ارشاد ہوا کہ مومن جتنی بار جال پانی میں ڈالتا تھا اور اس کے خالی آنے پر ناامید، پر ملول و شکستہ خاطر ہوتا تھا ،اتنی ہی بار میں اس کی شکستہ دلی کی وجہ سے بہشت میں اس کو نیا درجہ عطا کرتا تھا ۔ اور جب وہ کافر بتوں کے نام پر جال ڈالتا تھا اور مچھلیاں آنے پر خوش ہوتا تھا تو اس کی خوشی کے بقدر جہنم میں ایک اور درجہ دینے کا حکم دیتا تھا ۔

     *ما پروریم دشمن و ما می کشیم دوست*   
   *کس رارسد  نہ چوں و چرا درحضور ما*   

                 *اس* کے بعد *حضرت شاہ علم اللہ* نے فرمایا :کہ ایک *حدیث* میں آتا ہے کہ *جب کوئی غریب مسلمانوں بازار جاتا ہے اور بازار کی نعمتیں دیکھتا ہے لیکن اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خرید نہیں سکتا اور اس پر صبر کرتا ہے ،تو اللہ تعالی اس کے صبر کے معاوضہ میں جنت میں اس کو نیا درجہ عطا فرماتے ہیں ۔ ( *تذکرہ شاہ علم اللہ ص : ۹۵*)

               *اس* وقت ہندوستانی مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی حالت کچھ اسی مسلم ماہی گیر ہی (مچھیرے) کی طرح ہے اور غیر مسلموں اور باطل طاقتوں کی مثال اس کافر ماہی گیر کی طرح ہے ۔ ہم مسلمانوں کو ہر محاذ پر باوجود ایمان والے ہونے کے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ باطل کو ہر محاذ پر کامیابی ہی کامیابی مل رہی ہے اور باطل کے خیمہ میں اس کامیابی پر  خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ۔ ہم مسلمان ملول اور شکستہ ہیں اور باطل کے خیمہ میں جشن کا سماں اور ماحول ہے ۔ یقینا ہم مسلمانوں کی بے بسی پر، شکست خوردگی اور ملول و افسردگی پر فرشتوں کو ترس آتا ہوگا اور وہ بھی اس کی وجہ اللہ سے دریافت کرتے ہوں گے اور ہمیں امید ہے کہ جس طرح اس مسلم ماہی گیر کا اللہ تعالی ہر بار درجہ بڑھا رہا تھا یقینا ہم لوگوں کے درجات بھی اللہ تعالی بلند فرما رہے ہوں گے ۔ بس ہم مسلمانوں کو اپنا یقین بنانا ہوگا اور اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی فکر و کوشش کرنی ہوگی ۔
               اور ساتھ اس ارشاد خداوندی پر سچا اور پکا یقین رکھنا ہوگا کہ *ولا تھنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین*  *شکستہ دل مت ہو اور غمزدہ مت ہو تمہیں سر بلند ہو گے اگر تم سچے مومن ہو*
           *لیکن* اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر  بیٹھ جائیں اور اصلاح احوال اور باطل کی ریشہ دوانیوں کی کاٹ کی کوئ فکر نہ کریں ۔ ہرگز نہیں ہمیں تدبیر تو کرنی ہی پڑے گی ۔ جس طرح کے وہ بیچارہ مومن مچھیرا شام تک جال ڈالتا ہی رہا محرومی اور ناکامی کی وجہ سے بیٹھ نہیں گیا ۔ خدا کرے کہ ہم ان حقائق کو سمجھ لیں ۔ اور اغیار کے مکر و فریب   اس کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ سامانیوں کے لئے مناسب اور موثر تدبیر کرتے رہیں ۔

Thursday, 20 December 2018

صبر کا دامن ہرحال میں تھامے رکھیے_______


*🌳 بے صبری اور حرام کمائی  🌳*
ایک صاحب سفر میں تھے۔کہ راستے میں نماز کاوقت ہوگیا ایک آبادی میں داخل ھوئے اور نماز کے لئے مسجد کا پتا کیا تو قریب ہی مسجد مل گئی۔
جب نماز کے لئے مسجد میں جانے لگے تو خیال آیا کہ اپنی سواری یعنی گھوڑا کس کے حوالے کروں کہیں ایسا نہ ھو کہ میری غیر موجودگی میں کوئی میری سواری اور اس پر لگی بیش قیمت زین (جو کہ گھوڑے کی کمر پر باندھتے ھیں) چوری کر لے۔

ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھے کہ ان کی نظر ایک نوجوان پر پڑی جو ان کی ہی طرف دیکھ رہا تھا لڑکے کو اشارہ کر کے بلایا اور کہا کہ بیٹا میں مسافر ھوں نماز کا وقت ھو رہا ھے کیا میرے نماز ادا کرنے تک تم میرے سامان اور سواری کی حفاظت کر سکتے ھو ؟

لڑکے نے کہا ! کیوں نہیں آپ بے فکر ھو کر نماز کے لئے جائیں میں آپ کے سامان کے پاس کھڑا ھوں۔ وہ صاحب بہت خوش ھوئے اور نماز کے لئے مسجد میں چلے گئے.... جب نماز پڑھ کر باہر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ۔۔۔۔۔ نا صرف وہ لڑکا غائب تھا بلکہ گھوڑے کی زین بھی غائب تھی۔
خیر صبر کر کے بازار کا رخ کیا کہ نئی زین خرید لوں....ایک دکان پر رکے تو دیکھا کہ ان کی وہی زین اس دکاندار کی دکان میں لٹکی ھوئی ھے۔
انھوں نے دکاندار سے کہا کہ یہ زین تمھارے پاس کہاں سے آئی؟

اس نے جواب دیا کہ ابھی ایک لڑکا 2 درہم میں بیچ کر گیا ھے۔
ان صاحب نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور بولے ۔۔۔۔۔۔ارے اللہ کے بندے تھوڑا صبر کرلیتا تو یہ 2 درہم حرام نہ ھوتے۔

دکاندار نے پوچھا تو بتایا کہ میں نے نماز میں ہی سوچ لیا تھا کہ نماز پڑھ کر اس لڑکے کو 2 درہم دوںگا مگر افسوس ۔

جلد بازی کی وجہ سے اس نے اپنی کمائی حرام کر لی ۔۔۔۔۔۔اگر صبر کرلیتا تو یہی 2 درہم اسے ملتے مگر جائز طریقے سے ملتے
انسان کو رزق اتنا ہی ملتا ھے جو اللہ نے نصیب میں لکھ دیا ۔
حرام یا حلال طریقہ سےحاصل کرنا ہمارے اختیار میں ھے .. اللہ اکبر

سبق:- اس لڑکے کے مقدر میں دو درہم لکھے گئے تھے جو اسے ہر حال میں ملنے تھے اگر وہ صبر کر لیتا تو وہ اسے حلال (ہدیہ) طریقے سے حاصل کرسکتا تھا مگر اس نے صبر کا دامن چھوڑ کر چوری کرکے اپنے مقدر میں لکھے (جو اسے ہر حال میں ملنے تھے) دو درہم حرام طریقے سے کمائے، اسلئے ہمیں ہر حال میں صبر سے کام لیتے ہوئے رزق حلال کی جستجو میں رہنا چاہیئے۔

*🌹 ایک عورت کا صبر اپنی اولاد کے مر جانے پر 🌹*
ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا "اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اِس گناہگار بندی سے کیا تقصیر ہوئی کہ سال میں نو مہینے خونِ جگر دے کر اِس بچّے کی تکلیف اُٹھاتی ہوں اور جب اُمید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اُس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ آئے دن میرا دل غم کے حول کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچّہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔ اے دُکھی دلوں کے بھید جاننے والے.! مجھ بےنوا پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔" روتے روتے اُسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پُربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اُس عورت کا نام لکھا ہُوا تھا۔ باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عورت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اُس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اُس کے تمام بچّے بھی اُسی محل میں موجود تھے جو اُسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھُوم اُٹھے تھے۔ پھر اُس عورت نے ایک غیبی آواز سُنی کہ "تُو نے اپنے بچّوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا, یہ سب اُس کا اجر ہے۔" خوشی کی اِس لہر سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اُس کا سارا ملال جاتا رہا اور اُس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا "یا الہٰی اب اگر تُو اِس سے بھی زیادہ میرا خُون بہا دے تو میں راضی ہوں۔ اب اگر تُو .  سال بھی مجھے اِسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔"
درسِ حیات: انسان کو ہر حال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز انسان کو اللّٰہ کے قریب کرتی ہے۔
حکایت نمبر 63, مترجم کتاب "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا جلال الدین رومی رح

Sunday, 16 December 2018

نیک بندوں کاحکم سب چیزوں پر🌷

﷽الحمدللہ رب العالمین. الصلاۃ والسلام علی سید المرسلین*  *✍ محمد مسعود افغانی*

بندہ جب الله کے در پر جھکتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے تو الله فقیری میں اس کو شاہی رنگ عطا فرما دیتے ہیں۔ہم فقیروں سے دوستی کر لو 
گُر سکھائیں گے بادشاہی کا ..
لگاتا تھا جو جب نعرہ تو خیبر توڑ دیتا تھا حکم دیتا تھا دریا کو، رستہ چھوڑ دیتا تھا
تو ایمان بنانے پر الله رب العزت بندے کو دنیا میں بھی ایسی کامیابی عطا فرما دیتے ہیں۔


🌸شیر کا حضرت عمر رضی کی اطاعت کرنا:🌸ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ باہر نکلے 👈تو دیکھا کہ ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ لگی ہے آپ نے پوچھا کیا معاملہ ہے¿ آپ کو بتایا گیا کہ ایک 👈شیر ہے جو لوگوں کا راستہ روکے ہوۓ ہے اور لوگ اس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی سواری سے اترے اور شیر کے پاس گۓ اور اس کا 👈کان پکڑ کر موڑا اور اس کی گدی پر مارا اور اس کو راستہ سے ہٹا دیا-

   پھر فرمایاکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے 👈تیرے بارے میں سچ فرمایا تھا کہ ابن آدم پر یہ جب ہی مسلط کیا جاتا ہے جب  ابن آدم اس سے ڈرتا ہے اور جب ابن آدم 👈صرف اللہ سے ڈرے تو اللہ تعالی اس کو اس پر مسلط نہیں کرتا👈 ابن آدم کو اس کے حوالے کردیا جاتا ہے جس سے وہ امید باندھتا یے اور اگر وہ سواۓ اللہ کے کسی سے امید نہ رکھے تو اللہ تعالی اس کو کسی اور کے حوالے نہیں کرتا...!!
(حیاۃ الصحابہ ٤/ ٣٨٥)👈جب الله تعالیٰ پر ایمان پکا ہو، یقین کامل ہو تو یہ مومن خلیفتہ اللہ فی الارض ہوتا ہے، ذرا غور کیجئے کہ سیدنا عمر رضی الله عنہ خلیفہ وقت تھے، الله نے وہ شان عطا فرمائی کہ دیکھیں! الله کی مخلوق چار چیزوں سے بنی آگ، ہوا، پانی اور مٹی. چاروں پر ان کا حکم لاگو ہوتا تھا۔

🌺 زمین پر زلزلہ🌺
چنانچہ ایک مرتبہ زمین پر زلزلہ آیا عمر رضی الله عنہ نے زمین پر ایڑی ماری اور فرمایا: کہ اے زمین! تو کیوں ہلتی ہے کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟ ان کی یہ بات سن کر زمین کا زلزلہ رک گیا، زمین پر حکم چل رہا ہے۔

🌺ہوا پرپھر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوۓ، فرماتے ہیں: ہوا ان کے پیغام کو سینکڑوں میل دور پہنچا دیتی ہے، ہوا پر حکم چل رہا ہے۔

🌺دریاۓ نیل کا پانی نہیں چلتا، دریاۓ نیل کو رقعہ لکھتے ہیں، دریاۓ نیل! اگر اپنی مرضی سے چلتا ہے تو نہ چل اور اگر الله رب العزت کے حکم سے چلتا ہے تو امیرالمومنین تجھے حکم دیتے ہیں کہ چل! دریاۓ نیل چلنا شروع کر دیتا ہے، آج تک دریاۓ نیل کا پانی چل رہا ہے۔ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کی عظمتوں کے لہرا رہا ہے۔

🌺آگ نکلتی ہےمدینہ طیبہ کی ایک طرف سے ،  اور وہ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے. عمر رضی الله عنہ دحیتہ کلبی رضی الله عنہ کو فرماتے ہیں کہ 👈جائیں اور اس آگ کو واپس دھکیلیں. دحیتہ کلبی رضی الله عنہ نے 👈دو رکعت نفل پڑھے اور آگ کے پاس جاکر چادر کو 👈چابک کی طرح استعمال کیا، جیسے انسان کسی حیوان کو واپس اپنی جگہ دھکیلتا ہے، وہ چادر کے ذریعے آگ کو چابک مارتے گئے اور آگ کو واپس دھکیلتے گئے حتیٰ کہ جہاں سے آگ نکلی تھی وہیں پہ واپس چلی گئی

🌺 لکڑی کا پیالہ واپس گھوڑے دریا میں🌺چناچہ صحابہ میں سے سعد ابن وقاص رضی الله عنہ اپنی فوج کے ساتھ جا رہے تھے، آگے دشمن کی فوج ہے اور درمیان میں دریا. الله کی شان، انہوں نے اپنے 👈گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور گھوڑے چلتے چلتے بالآخر دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچ گئے. الله اکبر کبیرا! اور آگے جاکر انہوں نے پوچھا کہ کسی کی کوئی چیز دریا میں گری تو نہیں؟ ایک صحابی نے کہا کہ 👈میرا لکڑی کا پیالہ تھا. وہ دریا میں گر گیا ہے. دریا کو حکم دیتے ہیں کہ لکڑی کا پیالہ واپس کر! ایک پانی کی لہر آتی ہے اور لکڑی کے اس پیالے کو بھی کنارے پر ڈال جاتی ہے۔


*🌹بادشاہ ۔جادوگر ۔ اور نیک بچہ🌹*
مسند احمد کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادوگر تھا ، جب جادو گربوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری موت کا وقت قریب آرہا ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو۔
میں اسے جادو سکھادوں چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا۔لڑکا اس کے ہاں جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا۔
جہاں وہ عبادت میں اور وعظ و نصیحت میں مشغول ہوتا یہ بھی کھڑا ہوجاتا اور اس کے طریقہ عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا، آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا تھا ۔
جادوگر بھی مارتا اور باپ بھی ،کیوں کہ وہاں وہ دیرسے پہنچتا اور یہاں بھی دیر سے آتا ایک دن بچے نے راہب کے سامنے یہ شکایت پیش کی۔
راہب نے کہا جب جادوگر تم سے پوچھے کہ کیوں دیر ہوگئی تو کہنا کہ گھروالوں نے روک لیا تھا اور گھر والے بگڑیںتو کہنا کہ جادو گر نے روک لیا تھا۔
یوں ہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک طرف تووہ جادو سیکھتا تھا اور دوسری طرف کلام اللہ اوراللہ کا دین سیکھتا تھا۔
ایک دن یہ دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک سانپ پڑا ہے جس نے لوگوں کی آمد و رفت بند رکھی ہے۔ اِدھر والے اُدھر اور اُدھر والے اِدھر ہیں اور سب لوگ اِدھر ادھر پریشان کھڑے ہیں۔ اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقع ہے کہ میں امتحان لوں راہب کا دین اللہ کو پسند ہے یا جادوگر کا۔۔۔
اس نے ایک پتھر اٹھا کر اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ اے اللہ!اگر تیرے نزدیک راہب کا دین جادوگر کی تعلیم سے زیادہ محبوب ہے تو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کردے تاکہ لوگوں کو اس بلا سے نجات مل جائے۔ پتھر لگتے ہی وہ جانور ہلاک ہوگیا اور لوگوں کا آنا جاناشروع ہوگیا اور پھر لڑکے نے جا کر راہب کو خبر دی۔
اس نے کہا پیارے بچے آج کے دن تو مجھ سے افضل ہے۔اب اللہ کی طرف سے تیری آزمائش ہوگی اگر ایسا ہوا تو (لوگوں کو)میری خبر نہ کرنا۔
اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کا تانتا لگ گیااس کی دعا سے مادر زاد اندھے، کوڑھی ، جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے۔
بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں یہ بات پڑی وہ بڑے تحفے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے شفا دے دے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔
اس نے کہا کہ شفا میرے ہاتھ میں نہیں ، میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا،شفا دینا والا اللہ وحدہ لاشریک ہے اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں دعا کروںاس نے اقرار کیا بچے نے اس کے لئے دعا کی اللہ نے اسے شفا دے دی۔
وہ بادشاہ کے دربار میں آیا اور جس طرح اندھاہونے سے پہلے کام کرتا تھااسی طرح کام کرنے لگااس کی آنکھیں بالکل روشن تھیں۔
بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟
اس نے کہا میرے رب نے۔
بادشاہ نے کہا ہاں یعنی میں نے دی ہیں ؟
وزیر نے کہا نہیں ،نہیں میرا اور تیرا رب صرف اللہ ہے ۔
اب بادشاہ نے اس کی مار پیٹ شروع کردی اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور پوچھنے لگا تجھے یہ تعلیم کس نے دی؟
آخر اس نے بتایا کہ میں نے اس بچے کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے۔اس نے اسے بلایا اور کہا کہ اب تم جادو میں کامل ہوگئے ہو۔
اندھوں کو دیکھتا اور بیماروں کو تندرست کرنے لگے ہو۔اس نے کہا غلط ہے میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا ہوں،نہ جادو گر ہوں،شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
وہ کہنے لگا: اللہ تو میں ہی ہوں،اس نے کہا ہرگز نہیں ،
بادشاہ نے کہا: پھر تومیرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے تو اس نے کہا کہ میرا اور تیرا رب اللہ ہے ۔اس نے اب اس بچے کو طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کردیں۔
یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگالیا اور راہب کو بلا کر کہا کر اسلام کو چھوڑ دے۔
اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے اسے آرے سے چروا دیا۔پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو بھی دین اسلام سے پھر جا۔اس نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے فلاں پہاڑ کی چوٹی پر لے جائو،وہاں پہنچ کر بھی اگر دین سے باز آجائے تو اچھا ہے ورنہ وہیں سے لڑھکا دیں۔چنانچہ سپاہی اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جب اسے دھکا دیناچاہا تو اس نے اللہ سے دعا کی''اے اللہ! جس طرح تو چاہے مجھے اس سے نجات دے''
اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور سب سپاہی لڑھک گئے صرف وہی بچہ ہی باقی بچا رہاوہاں سے بادشاہ کے پاس گیا۔
بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوامیرے سب سپاہی کہاں ہیں ؟
بچے نے کہا: " اللہ نے مجھے بچالیا وہ سب ہلاک ہوگئے"
بادشاہ نے اپنے دوسرے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جائو اور سمندر میں پھینک آ ئویہ لوگ اسے لے کر چلے۔بیچ سمندر کے پہنچ کر جب اسے پھینکنا چاہا تو پھر وہی دعا کی''اے اللہ! جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا''
دعا کے ساتھ ہی موج اٹھی اور سارے کے سارے سپاہی سمندر میں ڈوب گئے ۔صرف وہی بچہ باقی بچا،پھر وہ بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: " میرے رب نے مجھے بچا لیااوراے بادشاہ !تو چاہے کتنی تدبیریں بھی کرلے تو مجھے ہلاک نہیں کرسکتا صرف ایک صورت ہے جس طرح میں کہوں اگر تو اس طرح کرے تو میری جان نکل سکتی ہے اس بچے نے کہا تمام لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور پھر کھجور کے تنے پر مجھے سولی چڑھا اور میرے تیر کو میری کمان پر چڑھا اور "بسم اللہ رب ھذا الغلام " ( یعنی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے)
پڑھ کر تیر میری طرف پھینک دووہ مجھے لگے گا اور میں مرجائوں گا۔
بادشاہ نے یہی کیا:تیر بچے کی کنپٹی میں لگااس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا،چاروں طرف سے یہ آوازیں بلند ہونے لگیںہم اس بچے کے رب پر ایمان لاتے ہیں ۔
یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے ساتھی بڑے گھبرائے اور کہنے لگے: ہم تو اس بچے کی ترکیب سمجھے ہی نہیں دیکھئے اس کا اثر کیا پڑاسب لوگ دین اسلام میں داخل ہوگئے۔
ہم نے تو اسے اس لئے قتل کیاتھا کہ کہیں اس کا مذہب پھیل نہ جائے لیکن جو ڈر تھا سامنے آہی گیا اور سب مسلمان ہوگئے۔
بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدوادو ان میں لکڑیاں بھرو اور آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے چھوڑ دو اور دوسرے کو اس میں پھینک دو۔
مسلمانوں نے صبر شکیب اور سہارے کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کیا اور اس میں کودنے لگے البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ تھاذرا جھجکی تو اس بچے کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں !کیا کررہی ہے تم تو حق پر ہو، صبر کرو اور اس میں کود پڑو۔
( ریاض الصالحین)قرآن میں سورۃ البروج کے اندر اس واقعہ پر اللہ رب العزت نے روشنی ڈالی ہے۔

Friday, 23 November 2018

تواضع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اختیار کیجیے

                  ·•☆🕋☆•·   ▁▂▃★━╯﷽╰━★▃▂▁
•════•✭🌲✭•════• 
*الحمدللہ رب العالمین*
✾••••••••••••✾✽✾•••••••••••••✾
*الصلاۃ والسلام علی سید المرسلین*
        ︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽
         *📚✧​🍂  ﷽  🍂✧​📚*
        ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾
─•••─↠❁✿🌷✿❁↞─•••─
 ☘    ↷منجانبــــ↶   ☘
*✍ محمد مسعود افغانی☝ آپ کی دعاؤں کا طالب* 
👈 راہ ھدایت میڈیا
91-7983921141📲  ℡ 8273318985
─•••─↠❁✿🌷✿❁↞─•••─

*🌹حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ پیر صاحب سے بیعت ہورہا تھا🌺*
حضرت مولانا زکریا صاحب کے فرزند حضرت مولانا پیر طلحہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے متعلق یہ واقعہ ہے
فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ سہارنپور تشریف لائے تو حضرت شیخ کو اطلاع ہوئی کہ حضرت مدنی تشریف لائے ہیں فوراً دسترخوان بچھادیا ایک طرف گدے بچھادیے بہت دیر کے بعد حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ تشریف لائے تو حضرت شیخ نے پوچھا کہ آپ تو بہت دیر سے آیے ہوئے ہیں اندر آنے میں اتنی دیر کیسے لگ گئی؟
تو حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ پیر صاحب سے بیعت ہورہا تھا
واقعہ یہ ہوا تھا کہ مولانا طلحہ صاحب خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میری عمر چھ یا سات سال کی تھی۔۔اور بچوں کو نقل اتارنے کی عادت ہوتی ہے تو حضرت مولانا طلحہ صاحب بھی چھ سات کو لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے کہ آؤ میں تمہیں بیعت کرتا ہوں تو حضرت مدنی یہ منظر دیکھ رہے تھے  حضرت مدنی رحمۃاللہ کے تواضع کو دیکھو  بہت دیر دیکھتے رہے جب بچے وہاں سے چلے گئے تو حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ نے حضرت مولانا طلحہ صاحب سے فرمایا کہ مجھے بیعت کروگے حضرت مولانا طلحہ صاحب نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ یہاں پر میں تمہیں بیعت کرتا ہوں حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ بیٹھ گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ لے کر چند کلمات کہلواے جو حضرت شیخ کہلوایا کرتے تھے کہ غیبت نہیں کریں گے فلاں نہیں کریں گے اسکے بعد فرمایا جاؤ تم مجھ سے بیعت ہوگئے تو اسکے بعد حضرت شیخ کے پاس گئے اور یہ واقعہ بیان فرمایا
حضرت مولانا طلحہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضرت مدنی رحمۃاللہ کی تواضع دیکھی کہ جب تک حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ حیات تھے جس مجلس میں میں ہوتا وہاں حضرت مدنی میرے سامنے دو زانو بیٹھا کرتے تھے حالانکہ حضرت مدنی علم کے پہاڑ تھے جن کے بارے میں حضرت حکیم الامت علامہ تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی نے علم وتواضع انتہائی درجہ کی عطا فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ جہاز سے سفر کر رہے تھے اس سفر میں حضرت مولانا یوسف صاحب حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی حضرت شیخ حضرت مدنی اور مولانا طلحہ صاحب تمام کے تمام سفر میں تھے اور روزآنہ مولانا یوسف صاحب کا بیان ہوتا تھا لوگوں نے حضرت مدنی سے اصرار کیا کہ آج تو آپ کا بیان ہوگا آپ نے فرمایا کہ مجھے بیان نہیں آتا مولانا یوسف صاحب کا بیان اچھا خاصا ہوتا ہے بس انہیں کا بیان سنیں لوگوں نے بہت اصرار کیا لیکن آپ نے منع کیا آخر میں حضرت مولانا طلحہ صاحب نے کہا کہ حضرت ہم تو آپ کا بیان سنیں گے فوراً کرسی پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میرے پیر کا حکم ہے رد نہیں کرسکتا حضرت مولانا طلحہ صاحب کی بات پر فرمایا کرتے تھے کہ میرے پیر کا حکم ہے رد نہیں کرسکتا
آج بھی حضرت مولانا طلحہ صاحب اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں تو آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے ہیں اور آگے فرمایا کہ میں نے ایسا تواضع کا پیکر میں نے نہیں دیکھا۔۔...من تواضع لله رفعه الله

حوالہ خطبات حنیف جلد ١ صفحہ ١٣٩

Wednesday, 7 November 2018

جیسی نیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسا معاملہ



*الحـــدیـــــث :*
*🌳دنیا کی دولت بطریق حلال اور اچھی نیت سے کمائے تو قیامت کے دن اسکا چہرا چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن🌳*
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا..
"جو شخص دنیا کی دولت بطریق حلال اس مقصد سے حاصل کرنا چاہے تاکہ اسکو دوسروں سے سوال نہ کرنا پڑے اور اپنے اہل و عیال کیلئے روزی اور آرام و آسائش کا سامان مہیا کرسکے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھی وہ احسان اور اچھا سلوک کرسکے تو قیامت کے دن وہ اللہ کے حضور میں اس شان کیساتھ حاضر ہوگا کہ اسکا چہرا چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اور چمکتا ہوگا..

🌳رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.🌳
اور جو شخص دنیا کی دولت حلال ہی ذریعہ سے اس مقصد سے حاصل کرنا چاہئے کہ بہت بڑا مالدار ہو جائے اور اس دولتمندی کی وجہ سے وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنی شان اونچی دکھا سکے اور لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کیلئے داد و دہش کرسکے تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالی کے حضور اس حال میں حاضر ہوگا کہ اللہ تعالی اس پر سخت غضب ناک ہوگا.." (شعب الایمان للبیہقی و حلیہ ابی نعیم)

تشریح :----------- معلوم ہوا کہ اچھی نیت سی اور نیک مقصد کیلئے دنیا کی دولت حلال ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا , نہ صرف یہ کہ جائز اور مباح ہے بلکہ وہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ قیامت کے دن ایسا شخص جب اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگا تو اس پر اللہ کا خاص الخاص فضل و کرم ہوگا جسکے نتیجے میں اسکا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن اور منور ہوگا..

لیکن اگر دولت کمانے سے غرض صرف بڑا دولت مند بننا اور دنیا کی بڑائی حاصل کرنا اور لوگوں کیلئے بڑے بڑے کام کرنا ہو تو یہ دولت کمانا اگرچہ حلال ہی طریقے سے ہو تب بھی ایسا گناہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص پر اللہ تعالی کا سخت غضب ہوگا اور اگر ناجائز اور حرام طریقوں سے ہو تب تو سخت ترین وبال ہے..
بحوالہ معارف الحدیث، جلد۲، حدیث۷۳، صفحہ۷۸..

*🍒_عبادت گذار عابداور شیطان_🍒*
*_بہترین واقعه سبھی حضرات ضرورپڑھیں اور آگــے بھی شئیرکریں.........._*

_ایک گاوں میں ایک نیک آدمی تھا ، وہ اللہ تعالی کی بہت عبادت کرتا تھا اور کفر و شرک کو ناپسند کرتا تھا ۔ اس گاوں میں ایک درخت تھا ، گاوں کے کچھ لوگ اس درخت کی پوجا کرتے تھے ، کچھ لوگوں نے اس کی خبر اس نیک آدمی کو دے دی ، وہ بہت غصہ ہوا اور اس درخت کو کاٹنے کے لیے نکل پڑا ۔ راستہ میں اس کی ملاقات ایک شیطان سے ہوئی ، وہ شیطان اس وقت انسان کی شکل میں تھا ، شیطان نے اس سے پوچھا : ارے میاں ! کہاں جارہے ہو ؟ اس نے جواب دیا : فلاں جگہ ایک درخت ہے ، لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں ، اس کو کاٹنے کے لیے جارہا ہوں ۔ شیطان نے اس کو پٹی پڑھائی : بھائ ! تم تو اس کی پوجا نہیں کرتے ہو ، پھر تمہارا کیا بگڑ رہا ہے ؟ اس کو مت کاٹو ۔ اس آدمی نے جواب دیا : ضرور کاٹوں گا ۔ اس بات کو لے کر دونوں میں لڑائی ہو گئ ، اس نیک آدمی نے شیطان کو زمین پر پٹخ دیا ۔ شیطان نے کہا : تم مجھے چھوڑ دو ، میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں ؛ چنانچہ اس نے شیطان کو چھوڑ دیا ، پھر شیطان نے اس سے کہا : دیکھو ، سچی بات تو یہی ہے کہ درخت کاٹنے سے تم کو کوئ فائدہ نہیں ہوگا ؛ اس لیے تم درخت مت کاٹو ، ہم تم کو روزانہ دو دینار (سونے کے دو سکے) دے دیا کریں گے ، اس میں تمھارا فائدہ ہے ۔ اس آدمی نے کہا : وہ سکے ہمیں کہاں ملیں گے ؟ شیطان نے کہا : جب صبح کو سوکر اٹھوگے ، تو اپنے تکیہ کے نیچے سے لے لینا ، اس پر وہ آدمی راضی ہو گیا اور وہیں سے واپس ہو گیا ۔ جب صبح ہوئ ، تو سچ مچ اس کو تکیہ کے نیچے سے دو دینار (سونے کے دو سکے) ملے ، وہ بہت خوش ہوا ؛ لیکن اگلی صبح اس کو تکیہ کے نیچے کچھ نہیں ملا ، پھر اس کو غصہ آگیا اور درخت کو کاٹنے کے لیے نکل پڑا ، راستہ میں اسی شیطان سے دوبارہ اس کی ملاقات ہوئ ، اس نے پوچھا : ارے میاں ! کہاں کا ارادہ ہے ؟ اس نے کہا : اسی درخت کو کاٹنے کے لیے جا رہا ہوں ، شیطان نے کہا : تم اس کو نہیں کاٹ سکتے ۔ اور یہ کہہ کر شیطان نے اس آدمی کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر چڑھ کر اس کا گلا دبانے لگا ۔ پھر شیطان نے اس آدمی سے کہا : جانتے ہو ؟ میں شیطان ہوں ؟ پہلی مرتبہ جب تم درخت کاٹنے کے لیے نکلے تھے ، تو تمھارا مقصد اللہ کو خوش کرنا تھا ؛ اس لیے تم نے مجھے پٹخ دیا تھا ، اب تو تم اس وجہ سے درخت کاٹنے نکلے ہو کہ تمھیں دو دینار نہیں ملے ، اب تمھاری نیت بدل گئ ہے ؛ اس لیے آج تمھارا یہ حال ہوا_ ۔ [ تلبیس ابلیس : ١/ ٣٠ ٬ ٣١ ]
اس کو کہتے ہیں”"جیسی نیت ویسی برکت“ اس لیے دیکھو ، جو بھی کام کرو ، اللہ تعالی کو راضی اور خوش کرنے کے لیے کرو ، اس میں کسی طرح کی کوئ لالچ نہ رکھو ، اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں ۔_

روح کا. . . . . . . . . . . ناشتہ کیا ھے

*🌷روح کا ناشتہ کیا ھے ؟🌷*
*شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم فرماتے ہیں :*
ایک مرتبہ  میں اپنے پیرو مرشد
حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی نوّراللہ مرقدہ کے ساتھ سفر میں تھا  حضرت کی خدمت میں فجر کے بعد حاضری ھوئی تو حضرت نے پوچھا  کہ بھائی ناشتہ کرلیا ھے ہم نے کہا حضرت ابھی نہیں کیا
وہ فرمانے لگے کیوں نہیں کیا ؟ہم نے کہا کہ میزبان ناشتہ نہیں لائےپھر فرمایا میں اس ناشتہ کی بات نہیں کررہا ۔
میں تو روح کے ناشتہ کی بات کررہا ھوں جو تمہارے اپنے اختیار میں ھے
صبح خو کچھ وقت نکال کر اللہ کا ذکر کر لیا کرو
یہ تمہاری روح کا ناشتہ ھے
جب آدمی صبح کو کچھ  کھانے کی چیز کھاتا ھے  تو اس ناشتہ سے جسم میں  تقویت پیدا ھوتی ھے ۔
اگر انسان ناشتے کے بغیر گھر سے نکل جاے تو کا م کرنے میں دشواری ھوگئ ۔
اسی طرح تم جب اللہ تبارک وتعالی  کی بارگاہ میں حاضر ھوکر  اللہ جل جلالہ کا ذکر کر لو گے تو یہ تمہارا روحانی ناشتہ ھوجاے گا ۔
اور تمہاری روح کو تقویت حاصل ھوجائے گی ۔
اس کے بعد جب تم باہر نکلو گے  تو تمہارا نفس وشیطان کے ساتھ مقابلہ پیش آئے گا ۔
اگر تم نے روح کا ناشتہ کیا ھوگا
تو تمہارے اندر نفس وشیطان سے  مقابلہ کرنے کی طاقت ھوگئ
اور پھر وہ  تم  پر غالب نہیں آسکیں گے ۔
( درس شعب الایمان  صفحہ نمبر 150
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم )