﷽الحمدللہ رب العالمین. الصلاۃ والسلام علی سید المرسلین* *✍ محمد مسعود افغانی*
بندہ جب الله کے در پر جھکتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے تو الله فقیری میں اس کو شاہی رنگ عطا فرما دیتے ہیں۔ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گُر سکھائیں گے بادشاہی کا ..
لگاتا تھا جو جب نعرہ تو خیبر توڑ دیتا تھا حکم دیتا تھا دریا کو، رستہ چھوڑ دیتا تھا
تو ایمان بنانے پر الله رب العزت بندے کو دنیا میں بھی ایسی کامیابی عطا فرما دیتے ہیں۔
🌸شیر کا حضرت عمر رضی کی اطاعت کرنا:🌸ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ باہر نکلے 👈تو دیکھا کہ ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ لگی ہے آپ نے پوچھا کیا معاملہ ہے¿ آپ کو بتایا گیا کہ ایک 👈شیر ہے جو لوگوں کا راستہ روکے ہوۓ ہے اور لوگ اس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی سواری سے اترے اور شیر کے پاس گۓ اور اس کا 👈کان پکڑ کر موڑا اور اس کی گدی پر مارا اور اس کو راستہ سے ہٹا دیا-
پھر فرمایاکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے 👈تیرے بارے میں سچ فرمایا تھا کہ ابن آدم پر یہ جب ہی مسلط کیا جاتا ہے جب ابن آدم اس سے ڈرتا ہے اور جب ابن آدم 👈صرف اللہ سے ڈرے تو اللہ تعالی اس کو اس پر مسلط نہیں کرتا👈 ابن آدم کو اس کے حوالے کردیا جاتا ہے جس سے وہ امید باندھتا یے اور اگر وہ سواۓ اللہ کے کسی سے امید نہ رکھے تو اللہ تعالی اس کو کسی اور کے حوالے نہیں کرتا...!!
(حیاۃ الصحابہ ٤/ ٣٨٥)👈جب الله تعالیٰ پر ایمان پکا ہو، یقین کامل ہو تو یہ مومن خلیفتہ اللہ فی الارض ہوتا ہے، ذرا غور کیجئے کہ سیدنا عمر رضی الله عنہ خلیفہ وقت تھے، الله نے وہ شان عطا فرمائی کہ دیکھیں! الله کی مخلوق چار چیزوں سے بنی آگ، ہوا، پانی اور مٹی. چاروں پر ان کا حکم لاگو ہوتا تھا۔
🌺 زمین پر زلزلہ🌺
چنانچہ ایک مرتبہ زمین پر زلزلہ آیا عمر رضی الله عنہ نے زمین پر ایڑی ماری اور فرمایا: کہ اے زمین! تو کیوں ہلتی ہے کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟ ان کی یہ بات سن کر زمین کا زلزلہ رک گیا، زمین پر حکم چل رہا ہے۔
🌺ہوا پرپھر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوۓ، فرماتے ہیں: ہوا ان کے پیغام کو سینکڑوں میل دور پہنچا دیتی ہے، ہوا پر حکم چل رہا ہے۔
🌺دریاۓ نیل کا پانی نہیں چلتا، دریاۓ نیل کو رقعہ لکھتے ہیں، دریاۓ نیل! اگر اپنی مرضی سے چلتا ہے تو نہ چل اور اگر الله رب العزت کے حکم سے چلتا ہے تو امیرالمومنین تجھے حکم دیتے ہیں کہ چل! دریاۓ نیل چلنا شروع کر دیتا ہے، آج تک دریاۓ نیل کا پانی چل رہا ہے۔ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کی عظمتوں کے لہرا رہا ہے۔
🌺آگ نکلتی ہےمدینہ طیبہ کی ایک طرف سے ، اور وہ بڑھنا شروع ہوجاتی ہے. عمر رضی الله عنہ دحیتہ کلبی رضی الله عنہ کو فرماتے ہیں کہ 👈جائیں اور اس آگ کو واپس دھکیلیں. دحیتہ کلبی رضی الله عنہ نے 👈دو رکعت نفل پڑھے اور آگ کے پاس جاکر چادر کو 👈چابک کی طرح استعمال کیا، جیسے انسان کسی حیوان کو واپس اپنی جگہ دھکیلتا ہے، وہ چادر کے ذریعے آگ کو چابک مارتے گئے اور آگ کو واپس دھکیلتے گئے حتیٰ کہ جہاں سے آگ نکلی تھی وہیں پہ واپس چلی گئی
🌺 لکڑی کا پیالہ واپس گھوڑے دریا میں🌺چناچہ صحابہ میں سے سعد ابن وقاص رضی الله عنہ اپنی فوج کے ساتھ جا رہے تھے، آگے دشمن کی فوج ہے اور درمیان میں دریا. الله کی شان، انہوں نے اپنے 👈گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور گھوڑے چلتے چلتے بالآخر دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچ گئے. الله اکبر کبیرا! اور آگے جاکر انہوں نے پوچھا کہ کسی کی کوئی چیز دریا میں گری تو نہیں؟ ایک صحابی نے کہا کہ 👈میرا لکڑی کا پیالہ تھا. وہ دریا میں گر گیا ہے. دریا کو حکم دیتے ہیں کہ لکڑی کا پیالہ واپس کر! ایک پانی کی لہر آتی ہے اور لکڑی کے اس پیالے کو بھی کنارے پر ڈال جاتی ہے۔
*🌹بادشاہ ۔جادوگر ۔ اور نیک بچہ🌹*
مسند احمد کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پہلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادوگر تھا ، جب جادو گربوڑھا ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری موت کا وقت قریب آرہا ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو۔
میں اسے جادو سکھادوں چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا۔لڑکا اس کے ہاں جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا۔
جہاں وہ عبادت میں اور وعظ و نصیحت میں مشغول ہوتا یہ بھی کھڑا ہوجاتا اور اس کے طریقہ عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا، آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا تھا ۔
جادوگر بھی مارتا اور باپ بھی ،کیوں کہ وہاں وہ دیرسے پہنچتا اور یہاں بھی دیر سے آتا ایک دن بچے نے راہب کے سامنے یہ شکایت پیش کی۔
راہب نے کہا جب جادوگر تم سے پوچھے کہ کیوں دیر ہوگئی تو کہنا کہ گھروالوں نے روک لیا تھا اور گھر والے بگڑیںتو کہنا کہ جادو گر نے روک لیا تھا۔
یوں ہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک طرف تووہ جادو سیکھتا تھا اور دوسری طرف کلام اللہ اوراللہ کا دین سیکھتا تھا۔
ایک دن یہ دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک سانپ پڑا ہے جس نے لوگوں کی آمد و رفت بند رکھی ہے۔ اِدھر والے اُدھر اور اُدھر والے اِدھر ہیں اور سب لوگ اِدھر ادھر پریشان کھڑے ہیں۔ اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقع ہے کہ میں امتحان لوں راہب کا دین اللہ کو پسند ہے یا جادوگر کا۔۔۔
اس نے ایک پتھر اٹھا کر اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ اے اللہ!اگر تیرے نزدیک راہب کا دین جادوگر کی تعلیم سے زیادہ محبوب ہے تو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کردے تاکہ لوگوں کو اس بلا سے نجات مل جائے۔ پتھر لگتے ہی وہ جانور ہلاک ہوگیا اور لوگوں کا آنا جاناشروع ہوگیا اور پھر لڑکے نے جا کر راہب کو خبر دی۔
اس نے کہا پیارے بچے آج کے دن تو مجھ سے افضل ہے۔اب اللہ کی طرف سے تیری آزمائش ہوگی اگر ایسا ہوا تو (لوگوں کو)میری خبر نہ کرنا۔
اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کا تانتا لگ گیااس کی دعا سے مادر زاد اندھے، کوڑھی ، جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے۔
بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں یہ بات پڑی وہ بڑے تحفے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے شفا دے دے تو یہ سب کچھ تجھے دے دوں گا۔
اس نے کہا کہ شفا میرے ہاتھ میں نہیں ، میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا،شفا دینا والا اللہ وحدہ لاشریک ہے اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں دعا کروںاس نے اقرار کیا بچے نے اس کے لئے دعا کی اللہ نے اسے شفا دے دی۔
وہ بادشاہ کے دربار میں آیا اور جس طرح اندھاہونے سے پہلے کام کرتا تھااسی طرح کام کرنے لگااس کی آنکھیں بالکل روشن تھیں۔
بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟
اس نے کہا میرے رب نے۔
بادشاہ نے کہا ہاں یعنی میں نے دی ہیں ؟
وزیر نے کہا نہیں ،نہیں میرا اور تیرا رب صرف اللہ ہے ۔
اب بادشاہ نے اس کی مار پیٹ شروع کردی اور طرح طرح کی تکلیفیں دیں اور پوچھنے لگا تجھے یہ تعلیم کس نے دی؟
آخر اس نے بتایا کہ میں نے اس بچے کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے۔اس نے اسے بلایا اور کہا کہ اب تم جادو میں کامل ہوگئے ہو۔
اندھوں کو دیکھتا اور بیماروں کو تندرست کرنے لگے ہو۔اس نے کہا غلط ہے میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا ہوں،نہ جادو گر ہوں،شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
وہ کہنے لگا: اللہ تو میں ہی ہوں،اس نے کہا ہرگز نہیں ،
بادشاہ نے کہا: پھر تومیرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے تو اس نے کہا کہ میرا اور تیرا رب اللہ ہے ۔اس نے اب اس بچے کو طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کردیں۔
یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگالیا اور راہب کو بلا کر کہا کر اسلام کو چھوڑ دے۔
اس نے انکار کیا تو بادشاہ نے اسے آرے سے چروا دیا۔پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو بھی دین اسلام سے پھر جا۔اس نے بھی انکار کیا تو بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے فلاں پہاڑ کی چوٹی پر لے جائو،وہاں پہنچ کر بھی اگر دین سے باز آجائے تو اچھا ہے ورنہ وہیں سے لڑھکا دیں۔چنانچہ سپاہی اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جب اسے دھکا دیناچاہا تو اس نے اللہ سے دعا کی''اے اللہ! جس طرح تو چاہے مجھے اس سے نجات دے''
اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور سب سپاہی لڑھک گئے صرف وہی بچہ ہی باقی بچا رہاوہاں سے بادشاہ کے پاس گیا۔
بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوامیرے سب سپاہی کہاں ہیں ؟
بچے نے کہا: " اللہ نے مجھے بچالیا وہ سب ہلاک ہوگئے"
بادشاہ نے اپنے دوسرے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جائو اور سمندر میں پھینک آ ئویہ لوگ اسے لے کر چلے۔بیچ سمندر کے پہنچ کر جب اسے پھینکنا چاہا تو پھر وہی دعا کی''اے اللہ! جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا''
دعا کے ساتھ ہی موج اٹھی اور سارے کے سارے سپاہی سمندر میں ڈوب گئے ۔صرف وہی بچہ باقی بچا،پھر وہ بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: " میرے رب نے مجھے بچا لیااوراے بادشاہ !تو چاہے کتنی تدبیریں بھی کرلے تو مجھے ہلاک نہیں کرسکتا صرف ایک صورت ہے جس طرح میں کہوں اگر تو اس طرح کرے تو میری جان نکل سکتی ہے اس بچے نے کہا تمام لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور پھر کھجور کے تنے پر مجھے سولی چڑھا اور میرے تیر کو میری کمان پر چڑھا اور "بسم اللہ رب ھذا الغلام " ( یعنی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے)
پڑھ کر تیر میری طرف پھینک دووہ مجھے لگے گا اور میں مرجائوں گا۔
بادشاہ نے یہی کیا:تیر بچے کی کنپٹی میں لگااس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا،چاروں طرف سے یہ آوازیں بلند ہونے لگیںہم اس بچے کے رب پر ایمان لاتے ہیں ۔
یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے ساتھی بڑے گھبرائے اور کہنے لگے: ہم تو اس بچے کی ترکیب سمجھے ہی نہیں دیکھئے اس کا اثر کیا پڑاسب لوگ دین اسلام میں داخل ہوگئے۔
ہم نے تو اسے اس لئے قتل کیاتھا کہ کہیں اس کا مذہب پھیل نہ جائے لیکن جو ڈر تھا سامنے آہی گیا اور سب مسلمان ہوگئے۔
بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدوادو ان میں لکڑیاں بھرو اور آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے چھوڑ دو اور دوسرے کو اس میں پھینک دو۔
مسلمانوں نے صبر شکیب اور سہارے کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کیا اور اس میں کودنے لگے البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا سا بچہ تھاذرا جھجکی تو اس بچے کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں !کیا کررہی ہے تم تو حق پر ہو، صبر کرو اور اس میں کود پڑو۔
( ریاض الصالحین)قرآن میں سورۃ البروج کے اندر اس واقعہ پر اللہ رب العزت نے روشنی ڈالی ہے۔