Wednesday, 28 February 2018

دوسروں کی مدد اور خدمت کیجیئے _______

*✅🌷انسانیت کی خدمت🌷✅*

*دوسروں کی مدد اور خدمت کیجیئے ______*

کہتے ہیں ایک نوجوان نے دنیا سے تنگ آ کر راہبانہ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لئیے اس نے شہر سے دور ایک غار میں جانے کا سوچا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ اس غار میں ایک بہت بڑا راہب پہلے بھی رہتا تھا جسے وہاں قیام کئیے سالوں ہو چلے تھے۔
وہ نوجوان بھی وہاں پنہچا اس نے دیکھا کہ وہ راہب اپنی عبادت میں اس قدر مگن ہے کہ اسے دنیا کی ہوش نہیں۔ اسنے اس راہب کو سلام کیا۔ راہب نے اس نوجوان سے وہاں آنے کے متعلق پوچھا۔
نوجوان نے بتایا کہ وہ دنیا سے تنگ ہے اور اس کی طرح راہبانہ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ وہ خُدا کو پانا چاہتا ہے۔
راہب نے کہا کہ وہ سالوں سے ریاضت کر رہا ہے لیکن ابھی تک خُدا کو نہیں پا سکا۔ نوجوان بھی ایک طرف ہو کے عبادت کرنے لگا۔ تھوڑی دیر گزری تو کسی کے رونے کی آواز آنے لگی جیسے کوئی بہت تکلیف میں ہو۔ نوجوان سے رہا نہ گیا اس نے راہب سے کہا کہ ہمیں چل کر دیکھنا چاہیے شائد کسی کو مدد کی ضرورت ہو۔
راہب نے کہا کہ وہ ہر گِز اپنی عبادت چھوڑ کر نہ جائے گا اگر جانا ہے تو نوجوان اکیلا جائے۔ اس نوجوان سے نہ رہا گیا اور وہ اُٹھ کر باہر نکل گیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک شحص ہے جو کُچھ دور بیٹھا ہے جب نوجوان پاس پنہچا تو اس نے دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ پتھروں کے بیچ پھنسی ہوئی ہے۔ نوجوان نے اس کے ساتھ مل کر پتھر ہٹائے اور اس کی ٹانگ آزاد کروا دی۔
اس شحص نے نوجوان سے وہاں ہونے کے متعلق پوچھا : نوجوان نے بتایا کہ وہ خُدا کو پانا چاہتا ہے اور اس لئیے اس غار میں آ بیٹھا وہاں اپنی عبادت کر رہا تھا آپ کی آواز سنی تو لگا آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو آ گیا۔
اس شحص نے پوچھا وہاں کوئی اور بھی ہے ؟؟
نوجوان نے اسے راہب کے متعلق بتایا۔
اس پر اس شحص نے کہا تو نہیں جانتا میں کون ہوں میں ایک فرشتہ ہوں اور خُدا کے حکم سے آیا ہوں۔ بیشک تو نے کسی کی خدمت سے خُدا کو پا لیا اور وہ راہب ابھی تک ویسے کا ویسا کورا رہا جب نوجوان نے یہ سُنا تو اسے سمجھ آ گئی کہ رب کو پانا ہے تو عبادت سے نہیں خدمت سے پا سکو گے اس نے اپنا سامان لیا اور واپس اس نیت سے شہر چل دیا کہ اب وہ مجبور اور بےکس لوگوں کی خدمت کرے گا۔
کہ عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے رب،

دوستو ! ہم انسانوں کو انسانیت کی خدمت کے لئیے پیدا کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ماشاء الله سے تہجد گزار ہیں لیکن ان کا ہمسایہ کس تکلیف میں ہے اس بارے لاعلم ہیں۔ آئیے عہد کریں کہ جتنی ہو سکی ہم بھی انسانیت کی خدمت کریں گے ان شاء الله____کہ حضرت اقبال نے کہا ہے 👇

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئیے کُچھ کم نہ تھے کروبیاں

خوش رہیں خوشیاں بانٹیں الله سب کو ہمیشہ خوش رکھے آمین یارب العالمین __

دوسروں کی مدد کر نے پر اللہ کی رحمت

🌷بلی کے بچوں کی مدد کرنے سے ماں نارمل🌷
ایک نوجوان کی ماں سخت بیمار اور ہسپتال میں انتہائی سیریس حالت میں تھی۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھاکہ برخوردار زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر ہم اب مایوس ہو چکے ہیں‘ تم کسی بھی لمحہ کوئی بری خبر سننے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہنا‘ رات گھر گزارنے کے صبح ماں سے ملاقات کیلئے ہسپتال جاتے ہوئے نوجوان راستے میں ایک پیٹرول پمپ پر رکا‘پٹرول بھروانے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اس کی نظر سروس شاپ کی دیوار کے پاس پڑی جہاں ایک بلی نے خالی ڈبے کےنیچے بچے دےرکھے تھے۔ یہ نوزائیدہ بچے بہت ہی چھوٹے تھے جو ابھی چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ نوجوان کے ذہن میں جو پہلی بات آئی وہ یہ تھی کہ اتنے نازک اور چھوٹے سے بچے کھانا کہاں سے اور کیسےاور کیسے کھائیں گے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی کار ایک طرف ہٹا کر بند کی‘ پاس ہی کھڑی ایک ریڑھی سے چھوٹی چھوٹی مچھلیاں خریدیں اوراسے بلی کے بچوں کے پاس رکھا۔ بچوں نے کھانا شروع کیا تو وہ خوش ہو کر اپنی کار کی طرف گیا اور پٹرول بھروا کر ہسپتال جا پہنچا۔
جیسے ہی اس نے اپنی ماں کے کمرے میں جھانکا تو بسترخالی پا کراس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ ڈوبتے دل کے ساتھ ایک نرس سے پوچھا‘ میری امی کہاں ہے؟ نرس نے کہا‘ آج آپ کی امی کی طبیعت معجزاتی طور پر سنبھلی تھی۔ اسے جیسے ہی ہوش آیا تو ڈاکٹر نے کہا تھا اسے تازہ ہوا لینے کیلئے باہر لے جاو¿ تو ہم نے اسے کوریڈور سے باہر لان میں بٹھا دیا ہے‘ آپ اسے جا کر مل سکتے ہیں۔ نوجوان بھاگتا ہوا اپنی ماں کے پاس پہنچا‘ اسے سلام کیا‘ حال احوال پوچھا تو اس کی ماں نے کہا‘ بیٹے آج صبح میں نے خواب دیکھا کہ ایک بلی اور اس کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے میرے لئے دعا کر رہے ہیں۔بس یہ خواب دیکھتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور باقی کی صورتحال تم خود دیکھ رہے ہواور نوجوان حیرت بھری خوشی کے ساتھ اپنی ماں کی باتیں سنتا رہا اور اپنے دل کو ٹھنڈا کرتا رہا۔ جی ہاں‘ اس رب کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ سب کچھ اپنے اندر سمو لیتی ہے‘ ایسے تو ہمیں نہیں سکھایا گیا کہ اپنے مریضوں کاصدقہ سے علاج کرو یا صدقہ ہی تو ہے جو تمہارے رب کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرئے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو۔

🟩🟩🟩

کسی نے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس سے پوچھا، کیا دنیا میں آپ سے امیر ترین کوٸی ہے؟؟

بل گیٹس نے کہا جی ہاں ! ایک ہے جو مجھ سے زیادہ امیر ترین ہے۔پھر اس نے بتانا شروع کیاایک ایسے وقت میں جب میرے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے اور نہ ہی شہرت ایک دن میں نیو یارک کے اٸیرپورٹ پر تھا اور وہاں ایک اخبار بیچنے والا سامنے آیا۔ میں ایک اخبار خریدنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس چھوٹے ڈالر نہیں تھے۔ میں نے اخبار واپس کر دیا اور کہا کہ سوری میرے پاس کھلے نہیں ہیں ۔ اس نے جواب میں کہاں ! کوٸی بات نہیں، میں یہ آپ کو مفت میں دے رہا ہوں۔ میں نے انکار کیا لیکن اسکی بہت اسرار پر میں نے ان سے اخبار مفت میں لے لیا۔اتفاقاً 3 سال بعد میں اسی اٸیر پورٹ پر دوبارہ اترا۔ لیکن اس دفعہ بھی میرے پاس چھوٹے پیسے نہیں تھے۔ اخبار بیچنے والا پھر آیا اور اخبار پیش کیا۔ میں نے انکار کیا کہ میں یہ نہیں لے سکتا میرے پاس کھلے نہیں ہیں۔ اس نے پھر کہاں کہ آپ پیسے نہ دیں. یہ میں اپنی جیب سے ادا کر دون گا مجھے زیادہ نقصان نہیں ہے۔ اور میں نے وہ اخبار لے لیا۔ٹھیک 19 سال بعد میں امیر اور مشہور ہوگیا۔ مجھے وہ اخبار بیچنے والا زہن میں آیا اور میں اسکی تلاش کرنے لگا۔ ڈیڑھ مہینہ بعد میں اسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگیا۔میں نے ان سے پوچھا کیا آپ مجھے جانتے ہیں ؟ وہ کہنے لگا ہاں کیوں نہیں، آپ بل گیٹس ہیں۔ میں نے پھر پوچھا کیا آپ کو یاد ہے میں نے آپ سے مفت میں اخبار لیا تھا ؟ وہ کہنےلگا ہاں میں نے دو دفعہ آپ کو مفت اخبار دیا تھا۔میں نے ان سے کہا کہ آپ نے میری مدد کی تھی، اب آپ بتاٶ دنیا میں جو کچھ بھی آپکو چاہیے میں آپ کو دلا دونگا ؟

وہ کہنے لگا سر ! میں نہیں سمجھتا کہ آپ کی یہ مدد میرے اس مدد کہ برابر ہو گی جو میں نے آپکی کی تھی۔ میں نے پوچھا کیوں ؟

وہ کہنے لگا ! سر میں نے آپ کی مدد اس وقت کی تھی جب میں ایک غریب اخبار بیچنے والا تھا۔ اور آپ اس وقت مدد کر رہے ہو جب آپ امیر بن گٸے ہو۔ یہ دونوں کیسے ایک دوسرے سے میچ کر سکتے ہیں

اس دن مجھے معلوم ہوا کہ اخبار بیچنے ولا مجھ زیادہ امیر ترین تھا کیونکہ اس نے کسی کی مدد کرنے کے لیے خود امیر بننے کا انتظار نہیں کیا۔ لوگوں کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ امیر ترین وہ ہے جس کا دل امیر ترین ہے وہ نہیں جن کے پاس بہت سارا پیسہ ہو...

اللہ کی عبادت ایسےکریے ________________

عبادت                       اللہ کی عبادت ایسےکریے
🌸💖🍃💖🍃🌸🍃💖🍃💖🌸
             ┄┅═════❁❁═════┅┄
♻ *بســـــــــــم اللـــــہ الرحـــمن الرحیــم*♻
┄┅═════❁❁═════┅┄                🌺*اللہ کی عبادت ایسےکریے* 🌺   
  ┅◐══◐══♡◐♡══◐══◐┅
      *راہ ھدایت گروپ*
*شامل ہونےکیلئےاس نمبرپر رابطہ کریں*👇
📲  *℡ +91-7983921141* 
──•••─↠❀🌸❀↞──•••─
   ✍  *محمد مسعودرشیدی*

🌷ایک رکعت میں مکمل قرآن🌷
جنہوں نے  پڑھا
اس امت میں چار ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جنہوں نے ایک رکعت میں مکمل قرآن پڑھا، جن میں دو صحابہ میں سے تھے اور دو تابعین میں سے۔ صحابہ میں حضرت عثمان ابن عفان اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنھما۔ اور تابعین میں امام اعظم ابوحنیفہ اور سعید ابن جبیر رحمھما اللہ۔
{بحوالہ: سلف صالحین کے ایمان افروز واقعات‌، ص۔ ۱۱۱}

🔴صبح نمودار ہوتے ہی چرند پرند خدا کی حمد وثنا میں نغمہ سرا ہوگئے🔴
★حضرت سعدی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا صحرا میں سفر کرنے والے قافلوں کی روایت کے مطابق ہمارا کا رواں ساری رات سفر کرتا رہا اور جب صبح کے آثار ظاہر ہوئے تو آرام کرنے کے لیے ایک مناسب مقام پر پڑاؤ کیا۔ سب مسافر سونے کی تیاری کرنے لگے لیکن ایک شخص نے اچانک نعرہ مارا اور تیزی سے صحرا کی طرف روانہ ہوگیا۔ دن چڑھے وہ واپس آیا تو میں نے پوچھا کہ میاں یہ تیرا کیا حال ہوا؟ مجھے تو تیری یہ حرکت بہت ہی عجیب لگی۔
اس شخص نے جواب دیا، تم نے نہیں دیکھا کہ سپیدہ صبح نمودار ہوتے ہی چرند پرند خدا کی حمد وثنا میں نغمہ سرا ہوگئے ہیں۔ بلبلیں باغوں میں ، چکور پہاڑوں پر مینڈک پانی میں اور چوپائے جنگل میں شور کر رہے پس مجھے یہ بات مروّت سے بعید معلوم ہوئی کہ جانور توخدا کی یاد میں مشغول ہوں اور میں پڑ کر سو رہوں۔

پنچھیوں کی صدانے صبح کے وقت کر دیا مجھے کو بے خود و مد ہوش
شر مسار اس خیال سے میں ہوا مر غ تسبیح خواں ہیں، میں خاموش

*سبق:-اس حکایت میں حضرت سعدی نے ابنائے آدم کو ان کے اصل مقصد حیات کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ بلاشبہ یہ ہے کہ وہ خلوص دل سے اپنے رب کی عبادت کریں۔ پنچھیوں اور دوسرے جانداروں کے تسبیح خواں ہونے کا ذکر کرکے اپنی دلیل کو مضبوط بنایا اوراس شخص کی بے قراری کا نقشہ کھینچ کریہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر ذی شعور کو اپنے خالق کی یاد میں اسی طرح سر گرم اور بے قرارہونا چاہیے*
                                

*🍀 محنت اور سچی لگن 🍀*
★کہتے ہیں ملک عرب کا ایک بادشاہ ایک دن دربار میں آیا تو اس نے اپنے ایک خدمت گار کے بارے میں حکم دیا کہ یہ جتنی تنخواہ لیتا ہے، آج سے اسے اس سے دوگنی تنخواہ دی جائے کیونکہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ یہ دلی ، شوق اور پوری محنت ہے ہماری خدمت کرتا ہے۔ جب کہ اس کے ساتھیوں کا یہ حال ہے کہ وہ کام سے جی چراتے ہیں اور سارا وقت کھیل کود میں برباد کردیتے ہیں۔

اس وقت بادشاہ کے دربار میں ایک دانا شخص بھی موجود تھا جو ہر بات کی اصلیت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے بادشاہ کی زبان سے یہ بات سنی تو اس پر بے خودی طاری ہوگئی۔ اس نے ایک نعرہ بلند کیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے شخص ! تجھے کیا ہوا جو یوں بے خود ہوگیا؟
اس نے جواب دیا ، میری یہ حالت یہ سوچ کر ہوئی کہ اللہ پاک بھی اپنے بندوں کے درجے اسی طرح مقرر کرتا ہے جس طرح ہمارے بادشاہ نے اپنے خدمت گاروں کے درجے مقرر کیے ہیں جو اپنے کام میں مستعد تھا اسے ترقی دی جو غافل اور کہل تھے انھیں نظر اندار کردیا۔ بس یوں ہی  خدا کے اطاعت گزار میں انعام پائیں گے ، جو غافل ہیں محروم رہیں گے۔
*سبق:-اس حکایت میں حضرت سعدی نے خدمت خلق کی اہمیت واضح کر کے اطاعت خالق کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور مد لل انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ جو لوگ دنیاوی زندگی میں اپنے مالک اور خالق خدا کو راضی کرنے کے لیے مشقت اٹھائیں گے، بادشاہ کے فرض شناس نوکر کی طرح ضرور انعامات سے نواز سے جائیں گے۔*
                                 

سخاوت جنت میں ایک درخت ہے

سخاوت                     جنت میں ایک درخت ہے
*********************
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" سخاوت جنت میں ایک درخت ہے پس جو شخص سخی ہوگا وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑ لے گا جس کے ذریعہ سے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور کنجوسی جہنم کا ایک درخت ہے جو شخص بخیل ہوگا وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑ لے گا ،یہاں تک کہ وہ ٹہنی اس کو جہنم میں داخل کرکے رہے گی"۔ (بیہقی فی شعب الایمان :10451،عن ابی ہریر ہ رضی اللہ عنہ )
ایک گناہ کے بارےمیں: دنیا کے لیے علم دین حاصل
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*#حاتم_کی_سخاوت*
ملک یمن میں آباد قبیلہ طے کے سردار حاطم طائی کے پاس عربی نسل کا ایک بہت ہی عمدہ گھوڑا تھا۔ خوبصورتی اور تیز رفتاری میں یہ گھوڑا اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ ایک دن روم کے بادشاہ کے دربار میں حاطم طائی کی سخاوت اور اسکے گھوڑے کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی۔ اپنی اپنی معلومات کے مطابق ہر شخص حاتم کی تعریف کر رہا تھا۔
درباریوں کی یہ باتیں سن کر بادشاہ نے کہا، جب تک آزما نہ لیا جائے کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا عقلمندی کے خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ لوگ حاتم کے پاس جائیں اور اس سے اسکا وہی گھوڑا مانگیں۔ اگر وہ دے دے تو بے شک تعریف کا مستحق ہے اور اگر نا کرے تو ثابت ہو جائے گا کہ ریاکار ہے۔ سب نے بادشاہ کی اس بات کو درست مانا اور وزیر کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر حاطم طائی کے ہاں پہنچ گیا۔
شاہ روم کا یہ وفد رات کے وقت حاتم کے گھر جا پہنچا۔ اتفاق سے اس رات کو بارش بھی ہو رہی تھی اور بادل خوفناک انداز میں گرج چمک رہا تھا۔ اس زمانے میں ایسے موسم میں بہت سے مہمانوں کے کھانے اور آرام کا انتظام کرنا بہت دشوار کام تھا۔ لیکن حاتم نے زرا پریشانی محسوس نہ کی۔ اس نے فوری ایک گھوڑا زبح کیا اور دسترخوان بچھوا کر لذیذ بھنا ہوا گوشت مہمانوں کو کھلایا۔
صبح ہوئی تو وزیر نے جب حاتم طائی سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور وہ گھوڑا ان سے مانگا جسکی دور دور تک شہرت تھی۔ وزیر کی یہ بات سن کر حاتم بہت افسردہ ہوا اور بولا اگر آپ وہ گھوڑا ہی لینے آئے تھے تو آتے ہی یہ بات کیوں نہ بتائی؟ اب تو وہ پیارا گھوڑا اس دنیا میں نہیں ہے اور جیسا کہ آپکو معلوم ہے، رات بہت سخت طوفان تھا جس وجہ سے یہ ممکن نہ تھا کے میں چراگاہ سے کوئی جانور منگواتا اور آپکے کھانے کا انتظام کرتا۔ گھر پر صرف وہی گھوڑا تھا اور مجبور ہو کر اسی کو ذبح کر دیا، کیونکہ میں یہ بات کسی طرہ بھی گوارا نہ کر سکتا تھا کہ میرے مہمان بھوکے سوئیں۔ وزیر حاتم کی یہ بات سن کر حیران رہ گیا اس نے کہا، لوگ آپکی جس قدر تعریف کرتے ہیں خدا کے فضل سے آپ اس سے بھی زیادہ شریف اور سخی ہیں۔
بادشاہ روم کو جب یہ سارا واقعہ معلوم ہوا تو اس نے بھی یہ بات مان لی کہ حاتم طائی واقعی بہت سخی اور تعریف کا حقدار ہے۔

حضرت شیخ سعدیؒ نے اس حکایات میں یہ بات واضح کی ہے کہ ریا سے پاک اور کھرے انسان کی مثال خالص سونے جیسی ہوتی ہے کہ جب اسے پرکھا جائے تو اسکی قدر و قیمت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے عقلمندی کا تقاضا کے انسان نکلی زندگی کبھی اختیار نہ کرے۔ اگر نیک نامی کی خواہش ہے تو نیک کام کرے🍀🌸🍀🌸🍀🌸🌸🍃🍀🍃🌸

صدقہ کرنے کے فضائل اور واقعات


صدقہ                    کرنے کے فضائل اور واقعات

اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجه لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاته میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاته میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی.

صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے
2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے.
3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا
4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے، اور قبر کی گرمی کی ٹهنڈک کا سامان ہے

10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی ، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے
صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے
13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کے مخلوق محبت کرتی ہے.
. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے
16. صدقہ بلاء )مصیبت( کو دور کرتا ہے ، اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے
17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے.کام یابی اور رزق کا سبب ہے.
18.  صدقہ علاج بهی ہے دواء بهی اور شفاء بهی...
20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں ناہو..

🔴یتیم کی مدد کرنے پر بیماری سے نجات 🔴🔴
ایک حاجی صاحب کافی بیمار تھے .
کئی سالوں سے ہر ہفتے پیٹ سے چار بوتل پانی نکلواتے تھے، اور اب ان کے گردے واش ہوتے ہوتے ختم ہوچکے تھے۔
ایک وقت میں آدھا سلائس ان کی غذا تھی۔ سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا تھا۔ نقاہت اتنی کہ بغیر سہارے کے حاجت کیلئے نہ جا سکتے تھے۔
ایک دن چوہدری صاحب ان کے ہاں تشریف لے گئے ۔۔۔۔ اور انہیں سہارے کے بغیر چلتے دیکھا تو بہت حیران ہوئے انہوں نے دور سے ہاتھ ہلا کر چوہدری صاحب کا استقبال کیا ۔۔۔۔۔ ‘
پھر مسکرا کر ان کے سامنے بیٹھ گئے‘
ان کی گردن میں صحت مند لوگوں جیسا تناؤ تھا۔
چوہدری صاحب نے ان سے پوچھا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا؟
کوئی دوا‘ کوئی دعا‘ کوئی پیتھی‘ کوئی تھراپی۔ آخر یہ کمال کس نے دکھایا۔
حاجی صاحب نے فرمایا میرے ہاتھ میں ایک ایسا نسخہ آیا ہے کہ اگر دنیا کو معلوم ہوجائے تو سارے ڈاکٹر‘ حکیم بیروزگار ہو جائیں۔
سارے ہسپتال بند ہو جائیں اور سارے میڈیکل سٹوروں پر تالے پڑ جائیں۔
چوہدری صاحب مزید حیران ہوئے کہ آخر ایسا کونسا نسخہ ہے جو ان کے ہاتھ آیا ہے۔
حاجی صاحب نے فرمایا کہ میرے ملازم کی والدہ فوت ہوگئی‘
میرے بیٹوں نے عارضی طور پر ایک چھ سات سالہ بچہ میری خدمت کیلئے دیا‘
میں نے ایک دن بچے سے پوچھا کہ آخر کس مجبوری کی بنا پر تمہیں اس عمر میں میری خدمت کرنا پڑی‘
بچہ پہلے تو خاموش رہا پھر سسکیاں بھر کر بولا کہ ایک دن میں گھر سے باہر تھا، میری امی‘ ابو‘ بھائی‘ بہن سب سیلاب میں بہہ گئے، میرے مال مویشی ڈھور ڈنگر‘ زمین پر رشتہ داروں نے قبضہ کر لیا۔ اس دنیا میں میرا کوئی نہیں۔ اب دو وقت کی روٹی اور کپڑوں کے عوض آپ کی خدمت پر مامور ہوں۔
یہ سنتے ہی حاجی صاحب کا دل پسیج گیا اور پوچھا۔ بیٹا کیا تم پڑھوگے بچے نے ہاں میں سرہلا دیا۔
حاجی صاحب نے منیجر سے کہا کہ اس بچے کو شہر کے سب سے اچھے سکول میں داخل کراؤ۔
بچے کا داخل ہونا تھا کہ اس کی دعاؤں نے اثر کیا‘
قدرت مہربان ہوگئی‘
میں نے تین سالوں کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھایا‘
سارے ڈاکٹر اور گھروالے حیران تھے۔
‘ میں نے منیجر سے کہا کہ شہر سے پانچ ایسے اور بچے ڈھونڈ کر لاؤ جن کا دنیا میں کوئی نہ ہو۔ پھر ایسے بچے لائے گئے انہیں بھی اسی سکول میں داخل کرا دیا گیا ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور آج میں بغیر سہارے کے چل پھر رہا ہوں۔ سیر ہوکر کھا پی رہا ہوں اور قہقہے لگا رہا ہوں۔ حاجی صاحب سینہ پھلا کر گلاب کی کیاریوں کی طرف چل دئیے۔ اور فرمایا میں اب نہیں گروں گا جب تک کہ یہ بچے اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو جاتے۔ حاجی صاحب  ایک عجیب فقرہ زبان پر لائے ....

قدرت یتیموں کو سائے دینے والے
درختوں کے سائے لمبے کر دیا کرتی ہے !!

🔴🔴میت کہتی ہے اے رب  مجھے🔴🔴
تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہکروں
میت صدقہ کو کیوں ترجیح دیتی ہے اگر وہ دنیا میں واپس لوٹا دی جائے۔۔
جیسا کہ اللہ نے فرمایا
"اے رب اگر مجھے تھوڑی دیر کے لئے واپس لوٹا دے تو میں صدقہ کروں اور نیکوں میں شامل ہو جاؤں  (سورة المنافقون )
یہ نہیں کہیگا کہ۔۔عمرہ کروں گا نماز پڑھوں گاروزہ رکھوں گا
علماء نے کہا کہ :
میت  صدقہ کی تمنا اس لئے کریگا کیوں کہ وہ مرنے کے بعد  اس کا عظیم ثواب اپنی آنکھوں سے دیکھے گا
اس لئے صدقہ کثرت سے کیا کرو
بیشک مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا
🔴🔴 قمیص کاصدقہ کرنے کی وجہ🔴🔴
سےجنت میں داخلہ
علّامہ ابن جوزیؒ نےاپنی کتاب”صفۃ الصفوۃ“ میں مشہور تابعی حضرت صفوان بن سُلیمؒ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ سردی کے موسم میں ایک رات مسجد سے باہر نکلے، دیکھا کہ ایک شخص سردی سے کانپ رہا ہےاور اسکے پاس اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لئے کپڑے تک نہیں ہیں، چنانچہ انہوں  نے اپنی قمیص اتار کراُس شخص کو پہنادی،  اسی رات بلاد شام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ حضرت صفوان بن سُلیمؒ صرف اُس قمیص کےصدقہ کرنے کی وجہ سےجنت میں داخل
ہوئے،  وہ شخص اسی وقت مدینہ منوّرہ کے لئے روانہ ہوا اور مدینہ منورہ آکر حضرت صفوان بن سُلیمؒ کا پتہ پوچھا اور اپنا خواب بیان کیا۔(صفۃ الصفوۃ:1/385)

عدل اور انصاف کے واقعات 🌹

🔴دروازے ہر شخص کے لیے کُھلے ہوئے تھے🔴
خلافت اسلامیہ کی ماتحتی میں سکونت اختیار کرنے والے جمیع حاکم (مسلمان) اور غیر مسلم
دونوں کو انصاف میسر تھا,

  اپنی رعایا کی فکر ہوا کرتی تھی کہ کہی
ذرا سی غفلت کی وجہ سے رعایا کو ناانصافی میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑے اور قیامت کے روز مشکلات کا سمندر نمودار ہو.
خلافتِ راشدہ کی اہم ترین خصوصیت میں سے ایک یہ تھی کہ اُس میں اپنی اظہارِ رائے کی پوری آزادی تھی ۔
👈حضرت ابوبکر نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں علیٰ الاعلان کہہ دیا تھا کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو، اگر ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو۔
●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
🔴آپ نے اسے ایک کوڑا لگایا🔴
❉ حضرت عمر فاروقؓ آپ بہت نیک اور انصاف پسند تھے ، آپ کو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کئ بار جنتی ہونے کی خوش خبری دی ہے ۔
   جس زمانے میں آپ خلیفہ تھے ، آپ حکومت کے 👈سب کام ایک متعین وقت پر کیا کرتے تھے ، آپ کے یہاں فیصلہ چکانے کا بھی ایک متعین وقت تھا ۔ ایک شخص ایسے وقت آپ کے پاس آیا جب آپ حکومت کے دوسرے کاموں میں مشغول تھے اور کہنے لگا : فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا ہے آپ چل کر مجھے بدلہ دلوادیجیے ۔
     آپ نے اسے ایک کوڑا لگایا اور فرمایا :
👈جب میں اس کام کے لیے بیٹھتا ہوں تو تم لوگ آتے نہیں اور جب دوسرے کاموں میں لگ جاتا ہوں تو آکر کہتے ہو کہ بدلہ دلوادو ۔
    وہ شخص تو اتنا سن کر چلا گیا ، لیکن حضرت عمر فاروقؓ  کو بڑی شرمندگی ہوئ کہ ایک شخص میرے پاس فریاد لے کر آیا اور میں نے اسے مار دیا ۔ 👈پھر انھوں نے اس آدمی کو بلوایا اور اس کے ہاتھ میں کوڑا دے کر فرمایا : میں نے بغیر کسی غلطی کے تم کو مارا ہے تم بھی مجھے مارو ، اس نے کہا : میں آپ کو معاف کرتا ہوں ۔
     پھر گھر آکر حضرت عمرؓ نے دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے آپ کو بُرا بھلا کہنے لگے کہ اے عمر ! تو ذلیل تھا اللہ نے تجھے عزت دی ، تو گمراہ تھا اللہ نے تجھے ہدایت دی اور مسلمانوں کا خلیفہ بنایا ۔ اس کے باوجود اب ایک شخص تجھ سے انصاف مانگتا ہے تو تو اسے کوڑا مارتا ہے ، کل قیامت میں اللہ کو کیا جواب دےگا اور یہ کہہ کر روتے رہے ۔
●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
➰حضرت عمر کا تاریخی فیصلہ... ➰
👈 فورا انصاف ملنا شروع ہوجائے تو امن ہی امن پھیلتا جائے گا، بہترین مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا...
صنعاء نامی علاقے میں
👈 ایک شخص رہتا تھا، وہ کسی کام سے
دوسری.جگہ گیا اور پیچھے اپنی بیوی اور ایک بیٹا چھوڑا، یہ عورت اس بچے کی سوتیلی ماں تھی، عورت نے ایک مرد کو دوست(عاشق) بنا لیا جسکی خبر بیٹے کو لگ گئ تو
👈 اس عورت نے اپنے دوست سے کہا کہ اس لڑکے کو قتل کر دو، دوست نے انکار کر دیا تو عورت نے بھی دوستی سے انکار کر دیا،جس پر دوست نے عورت کا کہنا مان لیا،
خود اور ایک اور ساتھی کو بھی شامل کیا اور عورت اور اسکا نوکر بھی اس منصوبے مین شامل ہوگیا، اس طرح چاروں نے مل کر اس لڑکے کو قتل کر دیا بلکہ اس کے ٹکڑے کرکے خالی کنوے میں پھینک دیا
پھر سوتیلی ماں چلانے لگی،لوگ جمع ہوئے، اسکے بیٹے کو تلاش کیا تو لاش بری اور بدبودار حالت میں ملی، 👈 اس وقت قتل میں ملوث شخص بھی ساتھ کھڑا تھا، یہ منظر دیکھ کر وہ کپکپانے لگا، لوگوں نے پکڑ لیا اور آخر کار اس نے اعتراف کرلیا اور پورا معاملہ سامنے رکھ دیا اور باقی ساتھیوں کا بھی بتا دیا...
👈صنعاء علاقے کے امیر نے یہ واقعہ حضرت عمر کی بارگاہ میں لکھ بھیجا اور حکم پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قتل مین ملوث چاروںڑ مجرموں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ:" والله لو أن أهل صنعاء شركوا في قتله لقتلتهم أجمعين'👈اللہ کی قسم اگر صنعاء کے تمام باشندے اس میں ملوث ہوتے تو میں تمام کو قتل کرتا
(سنن کبری بیھقی روایت نمبر15976)

●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●

     سلطان محمود غزنوی کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا "حضور! میری شکایت نہایت سنگین ہے سب کے سامنے پیش نہیں کر سکتا"
سلطان یہ سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور سائل کو خلوت خانے میں لیجا کر پوچھا
سائل نے عرض کیا "حضور! ایک عرصے سے آپ کے 👈بھانجے نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ مسلح ہو کر میرے مکان پر آتا ہے، مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے اور خود جبراً میرے گھر میں گھس کر 👈میری گھر والی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔
👈غزنی کی کوئی سی عدالت سے مجھے انصاف نہ ملا۔ ہر کوئی آپ کے بھانجے کا سُن کر چپ کر جاتا ہے۔
👈اگر آپ نے انصاف کیا تو بہتر ورنہ میں اس معاملے کو اللہ کی عدالت کے سپرد کر کے انصاف کا انتظار کرونگا، جو سب کو انصاف دینے والا ہے۔۔۔!"
سلطان پر اس واقعہ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار آبدیدہ ہو گئے اور کہا "تم سب سے پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے؟،  آپکے دربانو کی رکاوٹ نے مجھے آنے نہ دیا،
👈وہ شخص دوبارہ تمہارے گھر آئے مجھے اس کی اطلاع کر دینا، میں اس کو ایسی عبرت ناک سزا دونگا کہ آئندہ دوسروں کو ایسے مظالم کرنیکی کی جرات نہ ہو سکے گی۔"
👈اِس ملاقات کے بعد دو راتیں گزر گئیں مگر سائل نہ آیا۔ سلطان کو تشویش ہوئی کہ نہ معلوم اُس غریب کو کیا حادثہ پیش آیا ہوگا،
👈 تیسری رات کو سائل دوڑتا ہوا پہنچا۔ اطلاع ملتے ہی سلطان نےسواری نکالی اور سائل کے ہمراہ اسکے گھر پہنچ کر اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو سائل نے انہیں بتلایا تھا۔
👈کمرے میں شمع جل رہی تھی۔ سلطان نے شمع گل کر دی اور خود خنجر نکال کر اُس بدکردار کا سر اڑا دیا۔ اس کے بعد شمع روشن کرائی مقتول کا
👈چہرہ دیکھ کر بے ساختہ سلطان کی زبان سے نکلا "الحمدللہ" اور پھر سائل سے کہا کہ پانی لاؤ۔ سائل جلدی سے پانی لایا تو
👈 سلطان نے پانی پی کر سائل سے کہا کہ "اب تم اطمینان سے اپنے گھر میں آرام کرو، انشاءاللہ اب کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی،
یہ کہہ کر سلطانِ محمود غزنوی رخصت ہونا ہی چاہتے تھا کہ سائل نے دامن پکڑ کر عرض کیا "حضورِ 👈والا! آپ نے جس طرح ایک مظلوم کیساتھ انصاف فرمایا حتیٰ کہ اپنی قرابت داری و خون کا بھی خیال نہ کیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اسکی جزائے خیر عطا فرمائے  ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ، آپ نے پہلے شمع گل کی اور پھر روشن کرا کر مقتول کا سر دیکھ کر "الحمدللہ" فرمایا اور اس کے فوراً بعد پانی طلب فرمایا اسکی کیا وجہ تھی؟"
سلطان نے ہر چند ٹالنا چاہا مگر سائل کے اصرار پر اسے بتلانا ہی پڑا۔۔۔!
میرے عزیز دوستو!  فیصلے کرنے والے جج اور حکمران اب کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔؟
٭👈"شمع گل کرنیکا مقصد یہ تھا کہ کہیں روشنی میں اس کا چہرہ دیکھ کر بہن کے خون کی محبت مجھے سزا دینے سے منع نہ کر دے۔
👈اور "الحمدللہ" کہنے کا سبب یہ تھا کہ یہ شخص میرا بھانجا تو دور کی بات ہے، میرا رشتے دار بھی نہیں ہے۔
مقتول اپنے آپ کو میرا بھانجا بتا کر تمہیں شاہی تعلق سے مرعوب کر کے اپنی خواشاتِ نفسانی کو پورا کرنے کے لیے راستہ صاف کرتا رہا۔ خداوندِکریم کا ہزارہا شکر ہے کہ محمود غزنوی کے رشتے داروں کا اس شرمناک بے ہودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے،
👈 اور پانی مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ جب سے تم نے اپنا واقعہ سنایا تھا میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہیں انصاف فراہم نہ کردوں، روٹی پانی میرے اُوپر حرام ہے۔ اب چونکہ میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکا تھا اور مجھ پر پیاس کا شدید غلبہ تھا اس لیے میں پانی مانگنے پر مجبور ہو گیا۔"
یہ کہہ کر سلطان محمود غزنوی اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے اپنے محل کی جانب روانہ ہو گئے، اور اپنے اِس انصاف کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

                    🛑 امن قائم ہوگیا __!!
ایک بادشاہ کہیں جارہا تھا۔ اس نے ایک کمہار کو دیکھا جو کافی سارے گدھے لیکر وہاں س گزر رہا تھا۔ اور تمام گدھے ایک ہی لائن میں چل رہے تھے۔ باد شاہ نے کمہار سے دریافت کیا: تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو۔؟

کمہار نے جواب دیا:
عالی پناہ جو گدھا لائن توڑتا ہے تو میں اسے سزا دیتا ہوں، اس ڈر سے یہ سب لائن میں چلتے ہیں۔ بادشاہ کمہار سے بہت متاثر ہوا اور اس نے کہا کیا آپ میرے ملک میں امن قائم کر سکتے ہو۔؟؟ کمہار نے حامی بھر لی ۔

دارالحکومت آخر بادشاہ نے کمہار کو شہر کا قاضی بنا دیا۔ کمہار کے سامنے ایک چور کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ جرم ثابت ہونے پر کمہار نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ جلاد نے یہ سنا تو کمہار کے کان میں کہا جناب یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔ کمہار نے دوبارہ حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ یہ سن کر وزیر خود کمہار کے پاس آیا اور کان میں کہنے لگا:

جناب یہ اپنا ہی آدمی ہے کچھ خیال کریں۔ یہ سنتے ہیں کمہار نے چور کا ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ نے کا حکم دے دیا۔ کمہار کے صرف ایک فیصلے سے ملک میں امن قائم ہوگیا۔

دیا نت اور ایمانداری


دیا نت اور ایمانداری

💗 *قید ہوکر بھی اپنے بادشاہ سے غداری نہ ک*💖

بیان کیا جاتا ہے کہ زوازان نامی بادشاہ کا ایک وزیر بہت ہی وفادار، نیک اور دانشمند تھا۔ اس کی ان خوبیوں کے باعث بادشاہ بھی اس کی بہت قدر کرتا تھا۔ لیکن تقدیر الٰہی سے کچھ ایسا ہوا کہ اس دانا وزیر سے کوئی غلطی ہو گئی کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔
بادشاہ کو وزیر کی اس لغزش کا حال معلوم ہوا تو وہ اس قدر ناراض ہوا کہ اس کی ساری جائیداد ضبط کر کے اسے قید خانے میں ڈال دیا۔ یہ بہت بڑی افتاد تھی جو اس وزیر پر آ پڑی تھی۔ لیکن اس مصیبت کے زمانے میں اس کی وہ نیکیاں اس کے کام آئیں جو اس نے اقتدار کے دنوں میں لوگوں سے کی تھیں۔ اس کا قاعدہ تھا کہ وہ ادنی لوگوں سے بھی میٹھی زبان میں بات کرتا تھا۔ جہاں تک ہوسکتا تھا لوگوں کو فائدہ پہنچاتا تھا۔ اب وہ مصیبت میں مبتلا ہوا تو وہ سپاہی اور اہل کار اس کے مددگار بن گئے جنہیں اس نے کوئی نہ کوئی فائدہ پہنچایا تھا اور یوں اسے محسوس بھی نہ ہوا کہ وہ قید خانے میں ہے۔
اس دوران میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ پڑوسی ملک سے بادشاہ نے اپنے ایک خاص آدمی کے ہاتھ اس وزیر کے نام ایک خط بھیجا اور اس میں لکھا کہ یہ جان کر ہمیں بہت زیادہ افسوس ہوا ہے کہ تم جیسے قابل قدر اور نیک وزیر کو تمھارے بادشاہ نے ذلیل کیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو ہم تمھاری رہائی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ اور اس بات پر آمادہ ہیں کہ اپنے دربار میں وزارت کی کرسی عنایت کریں۔ اگر تمہیں یہ بات منظور ہے تو فوراً ہمیں آگاہ کرو۔
دانا وزیر نے پڑوسی بادشاہ کا یہ خط پڑھا تو اس کی پشت پر یہ لکھ دیا کہ حضور نے میرے حال پر مہربانی فرمائی، میں اس کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ بات منظور نہیں کہ معمولی سی تکلیف سے گھبرا کر اپنے آقا سے بے وفائی کروں۔
پڑوسی بادشاہ کے قاصد کے آنے کا حال اتفاق سے ایک ایسے شخص کو بھی معلوم ہو گیا جو اس وزیر کا دشمن تھا۔ اس نے فوراً بادشاہ کو اطلاع دی کہ قیدی وزیر فلاں بادشاہ سے مل کر حضور کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ بادشاہ نے سپاہی بھیج کر اس قاصد کو گرفتار کرا لیا جو وزیر کا جواب لے کر جا رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگر ی بات سچ نکلی تو وزیر کو فوراً قتل کر ا دوں گا۔ لیکن جب دوسرے بادشاہ کا خط اور اپنے وزیر کا جواب پڑھا تو سار غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس پر وزیر کی وفاداری پوری طرح ظاہر ہو گئی اور اس نے اسی وقت اس کی آزادی کا حکم لکھ دیا۔
وزیر قید خانے سے رہا ہو کر آیا تو بادشاہ نے پہلے سے زیادہ اس کی عزت کی اور خلعت عطا کرنے کے علاوہ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ غلط فہمی کی وجہ سے اسے ناحق تکلیف پہنچائی۔ وزیر نے کہا کہ حضور خیال نہ فرمائیں۔ مجھے جو تکلیف پہنچی ہے۔ میری تقدیر میں لکھی تھی۔ خدا کی مرضی اور مشیت کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہلتا ہے۔
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے پاک رکھے اور جہاں تک ہوسکے خلق خدا کا خیر خواہ بن کر رہے۔ ایسی زندگی گزارتے ہوئے اگر کسی قسم کی افتاد بھی آ پڑے تو جن لوگوں کے ساتھ احسان کیا ہو وہ اسے تنہا نہیں چھوڑتے۔

🔴  *○ ســـــــــــونے کــا گھـــڑا ○*🔴

*❉ ایک آدمی بڑا امانت دار تھا ، اس نے ایک مرتبہ کسی سے زمین خریدی ، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسے زمین میں سے سونے کا ایک گھڑا ملا ، وہ سونے کا گھڑا لےکر زمین بیچنے والے کے پاس آیا اور اس سے کہا : بھائ صاحب ! میں نے آپ سے جو زمین خریدی تھی ، اس میں سے یہ سونے کا گھڑا نکلا ہے ، آپ اسے لے لیجیے ، میں نے تو آپ سے زمین خریدی ہے ، سونا نہیں خریدا ۔*
        *زمین والے نے کہا : میں نے زمین آپ سے ان تمام چیزوں کے ساتھ بیچ دی تھی جو اس زمین کے اندر ہے ۔*
        *دونوں آدمی اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے ، اس لیے ان میں سے ہر ایک نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سونے کے گھڑے پر میرا حق نہ ہو اور میں اسے صرف سامنے والے کے کہنے سے لے لوں اور قیامت میں اس پر میری پکڑ ہو جائے ، اس لیے دونوں نے بہتر یہی سمجھا کہ ہم کسی سمجھ دار آدمی کی خدمت میں جائیں اور ان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھیں ، وہ جیسا بتائیں اس پر عمل کر لیں ۔*
        *چنانچہ وہ دونوں اپنے مسئلے کے حل کے لیے اپنے علاقے کے ایک سمجھ دار آدمی کے پاس پہونچے ۔ سلام اور خیرخیریت کے بعد دونوں نے اپنی بات پیش کی ۔*
        *انھوں نے بات سننے کے بعد پوچھا : کیا تم دونوں کی کوئ اولاد ہے ؟ ایک نے کہا : میرا ایک بیٹا ہے ۔ دوسرے نے کہا : میری ایک بیٹی ہے ۔ انھوں نے دونوں آدمیوں سے کہا : تم دونوں اپنے بیٹے اور بیٹی کا ایک دوسرے سے نکاح کر دو اور ان کی ضرورتوں میں اس مال کو خرچ کردو اور جو بچ جائے اسے غریبوں میں تقسیم کردو ۔*

          ♻محنت سے چونی میں برکت ♻
مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے استاد تھے۔
اورنگ زیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔
جب اورنگ زیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔
اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔
چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔
استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔
استاد کو اپنے ساتھ لے کر اورنگ زیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔رمضان کا سارا مہینہ اورنگ زیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔
عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔
بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی
استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔
اس کے بعد اورنگ زیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔
جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔
مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔
اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔
یہ سن کر اورنگ زیب حیران رہ گئے کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔
انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی
مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔
اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔
مُلا احمد کا لباس بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لیے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ جٹا نہ پاے۔ سکا۔
ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے:
آپ نے جو چونّی دے تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔
میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔
اورنگ زیب یہ سن کرخوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا:
اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔
ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔
اورنگ زیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ “اتم چند” کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔
اسے اورنگ زیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔
اورنگ زیب نے نرمی سے کہا: آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہٹ کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔
سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔
مُلا احمد جیون اور اورنگ زیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔
یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔
اورنگ زیب نے نرمی سے پوچھا:
ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟
اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟
بادشاہ نے کہا : اجازت ہے۔
اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلا دھاربارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔
مکان نیا نیا بنا تھا اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔
میں نے بڑی کوشش کی ، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔
میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟
وہ بولا کیوں نہیں۔
وہ آدمی کام پر لگ گیا۔اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی اذان شروع ہو گئی۔
وہ کہنے لگا:
سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے ،میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔
میں نے اس سے کہا:
اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے ،اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔
وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں۔
لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔
میں نے مجبور ہو کر چونّی دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔
اور اس کے بعد سے آج تک وہ نہ مل سکا۔آج اس بات کو پندرہ برس بیت گئے۔
میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔
اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا:
یہ وہی چونّی ہے۔
کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔
سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔
مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنی محنت سے کمائی ہوگی۔ اورنگ زیب نے کہا : ہاں واقعی‘ اصل بات یہ ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لیے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔
ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
بحوالہ:کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات

                 🌷ھیرا اور مصری کی ڈلی 🌷
ایک یہودی کے پاس ایک مسلمان ہیرے تراشنے کا کام کرتا تھا۔ جو اپنے کام میں ہنر مند اور حد سے زیادہ ایماندار تھا۔ یہودی اس سنار کی کاریگری سے بے تحاشہ نفع کمانے کے باوجود اُسے مناسب معاوضہ ادا نہ کرتا تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ بمشکل اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتا تھا۔ یونہی کام کرتے کرتے اس نے عمر گزار دی۔ اس کی بیٹی جوان ہو گئی وہ اپنی قلیل آمدنی میں سے کچھ بھی جمع نہ کر سکا۔ بیٹی کی شادی کے لئے سنار کاریگر نے یہودی سے کچھ رقم بطور ادھار مانگی کروڑ پتی یہودی نے رقم دینے سے معذوری ظاہر کر دی۔ سنار اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا ہوا گھر لوٹ آیا۔ رقم ادھار نہ ملنے پر بیوی نے سخت ناراضگی اور طعنوں کے تیر برسا کر الگ استقبال کیا۔ پریشان حال بیچارہ ساری رات سوچتا رہا اب کیا ہو گیا۔ دوسرے دن وہ دکان پر کام کے لئے نہ گیا۔ بعد میں یہودی سنار کے بلانے پر جب وہ دکان پر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ جو اس نے یہودی کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ اس میں قیمتی ہیرا دیکھ کر یہودی سوالیہ نگاہوں سے کاریگر سنار کی طرف دیکھنے لگا۔
کاریگر بولا مالک یہ ہمارا خاندانی ہیرا ہے۔ اسے بیچنے کی اجازت نہیں آپ اسے گروی رکھ کر مجھے کچھ رقم دے دیں۔ میں آپ کو رقم لوٹا کر اپنا ہیرا واپس لے لوں گا۔ یہودی راضی ہو گیا۔
مسلمان کاریگر نے قرضے کی رقم سے بیٹی کی شادی کر دی۔ پھر دن رات کام کر کے قرض کی رقم آہستہ آہستہ ادا کرنے لگ گیا۔ قرضے کی آخری قسط ادا کرنے کے بعد مسلمان کاریگر نے اپنے ہیرے کا مطالبہ کیا ۔ یہودی نے وہ ہیرا لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ ہیرا تراشنے والے کاریگر نے ہیرا لے کر پانی میں رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرا گھُل کر ختم ہو گیا۔ ہیرا تراشنے والے کاریگر نے کہا مالک یہ مصری کی ڈلی تھی۔ جسے میں نے اپنے فن سے ہیرے کا اس طرح سے روپ دیا تھا کہ آپ جیسا سنار بھی دھوکہ کھا گیا۔ آپ نے میری عاجزی اور درخواست پر قرضہ نہ دیا۔ جس کی وجہ سے مجھے یوں آپ سے رقم نکلوانی پڑی میں مسلمان ہوں اس لئے بھاگا نہیں آپ کی پائی پائی ادا کر کے سرخرو ہو گیا۔ افسوس کہ آپ نے میری قدر نہ کی۔ اس لئے ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کاریگر یہودی کو پریشان چھوڑ کر چل دیا۔
📖 (حکایات رومیؒ سے

💗 *ایمانداری نے بادشاہ بنا دیا*💗
بہت پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا ، اس کا کوئی بیٹا نہ تھا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اسے فکر ہوئی کہ اس کے مرنے کے بعد تخت و تاج کا وارث کون ہو گا ؟ لہذا ایک دناس نے اپنے ملک میں اعلان کرایا کہ وہ ایک بچے کو گود لینا چاہتا ہے جو بعد میں اس کے تخت و تاج کا وارث ہو گا ۔ بچے کے انتخاب کے لیے یہ طریقہ بتایا گیا کہ تمام ملک میں سے کچھ بچے منتخب کیئے گئے ہر بچے کو بیج دیا جا ئے گا ۔ جس بچے کے بو ئے ہوئے پودے پر سب سے خوبصورت پھول کھلے گا ، وہ بادشاہ کا وارث بنا دیا جا ئے گا ۔ سونگ چن نامی کا ایک لڑکا تھا ، اس نے بھی بادشاہ سے ایک بیج لیا اور اپنے گھر آکر ایک گملے میں بو دیا ۔ تفصیل سے پڑھئے
وہ ہر روز اسے پانی دیا کر تا تھا ، اسے امید تھی اس کے پودے پر سب سے زیادہ خوبصور ت پھو ل کھلے گا ۔ دن گزر تے گئے مگر گملے میں سے کچھ بھی نکلا ۔ سو نگ چن کو بڑی فکر تھی۔ اس نے ایک اور گملا خریدا اور دور سے جا کر مٹی لایا اور اس بیج کو دو بارہ احتیا ط سے لگایا مگر دو مہینے گزر جانے پر بھی گملے میں سے کوئی پودا نہ نکلا ۔ پلک جھپکتے میں پھولو ں کی نمائش کا دن آ پہنچا ۔ سارے ملک کے بچے شاہی محل میں جمع ہوئے ۔ ہر ایک اپنے ہاتھو ں میں ایک گملا لیے ہوئے تھا ۔ گملوں میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ وہ واقعی بڑے خوبصورت تھے ۔ بادشاہ پھول دیکھنے بچوں کے پاس آیا۔ وہ ہر ایک خوبصورت پھول کو دیکھتا رہا مگر اسے کوئی پسند نہیں آرہا تھا ۔ چلتے چلتے اچانک اس کی نظر سونگ چن پر پڑی جو ایک خالی گملا لیے سر جھکائے کھڑا تھا ۔ سو نگ چن کے پاس جا کر رک گیا اور اس سے پو چھا : ”بیٹے ! تم خالی گملا لیے کیو ں کھڑے ہو ؟“ سونگ چن نے روتے ہوئے کہا : ” میں نے بیج گملے میں ڈالا تھا اور روزانہ پانی بھی دیتا تھا مگر اس سے اب تک کوئی پودا نہیں اگا ، اس لیے خالی گملا لیے کھڑا ہو ں ۔“ بات سن کر باد شاہ ہنس پڑا ، اس نے کہا تم ایک سچے لڑکے ہو، مجھے اپنے تخت و تاج کے لیے تم جیسے سچے لڑکے کی تلاش تھی ، تم ہی اس ملک کے بادشاہ ہو گے ۔ “کیونکہ میں نے سب بچوں کو جو بیج دے تھے وہ ابلے ہوئے تھے ۔ خراب ہو چکے تھے اس لیے ان سے پودے کا اگنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ دوسرے بچے اس لیے خوبصورت پھول کھلانے میں کامیا ب ہو گئے تھے کہ انہوں نے اس خراب کی جگہ اچھے بیج بو ئے تھے مگر سونگ چن نے یہ غلط حرکت نہیں کی تھی اور جھو ٹ سے کا م نہیں لیا تھا ، لہذا اسے سچائی کا انعام مل گیا