دیا نت اور ایمانداری
💗 *قید ہوکر بھی اپنے بادشاہ سے غداری نہ ک*💖
بیان کیا جاتا ہے کہ زوازان نامی بادشاہ کا ایک وزیر بہت ہی وفادار، نیک اور دانشمند تھا۔ اس کی ان خوبیوں کے باعث بادشاہ بھی اس کی بہت قدر کرتا تھا۔ لیکن تقدیر الٰہی سے کچھ ایسا ہوا کہ اس دانا وزیر سے کوئی غلطی ہو گئی کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔
بادشاہ کو وزیر کی اس لغزش کا حال معلوم ہوا تو وہ اس قدر ناراض ہوا کہ اس کی ساری جائیداد ضبط کر کے اسے قید خانے میں ڈال دیا۔ یہ بہت بڑی افتاد تھی جو اس وزیر پر آ پڑی تھی۔ لیکن اس مصیبت کے زمانے میں اس کی وہ نیکیاں اس کے کام آئیں جو اس نے اقتدار کے دنوں میں لوگوں سے کی تھیں۔ اس کا قاعدہ تھا کہ وہ ادنی لوگوں سے بھی میٹھی زبان میں بات کرتا تھا۔ جہاں تک ہوسکتا تھا لوگوں کو فائدہ پہنچاتا تھا۔ اب وہ مصیبت میں مبتلا ہوا تو وہ سپاہی اور اہل کار اس کے مددگار بن گئے جنہیں اس نے کوئی نہ کوئی فائدہ پہنچایا تھا اور یوں اسے محسوس بھی نہ ہوا کہ وہ قید خانے میں ہے۔
اس دوران میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ پڑوسی ملک سے بادشاہ نے اپنے ایک خاص آدمی کے ہاتھ اس وزیر کے نام ایک خط بھیجا اور اس میں لکھا کہ یہ جان کر ہمیں بہت زیادہ افسوس ہوا ہے کہ تم جیسے قابل قدر اور نیک وزیر کو تمھارے بادشاہ نے ذلیل کیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو ہم تمھاری رہائی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ اور اس بات پر آمادہ ہیں کہ اپنے دربار میں وزارت کی کرسی عنایت کریں۔ اگر تمہیں یہ بات منظور ہے تو فوراً ہمیں آگاہ کرو۔
دانا وزیر نے پڑوسی بادشاہ کا یہ خط پڑھا تو اس کی پشت پر یہ لکھ دیا کہ حضور نے میرے حال پر مہربانی فرمائی، میں اس کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ بات منظور نہیں کہ معمولی سی تکلیف سے گھبرا کر اپنے آقا سے بے وفائی کروں۔
پڑوسی بادشاہ کے قاصد کے آنے کا حال اتفاق سے ایک ایسے شخص کو بھی معلوم ہو گیا جو اس وزیر کا دشمن تھا۔ اس نے فوراً بادشاہ کو اطلاع دی کہ قیدی وزیر فلاں بادشاہ سے مل کر حضور کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ بادشاہ نے سپاہی بھیج کر اس قاصد کو گرفتار کرا لیا جو وزیر کا جواب لے کر جا رہا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اگر ی بات سچ نکلی تو وزیر کو فوراً قتل کر ا دوں گا۔ لیکن جب دوسرے بادشاہ کا خط اور اپنے وزیر کا جواب پڑھا تو سار غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس پر وزیر کی وفاداری پوری طرح ظاہر ہو گئی اور اس نے اسی وقت اس کی آزادی کا حکم لکھ دیا۔
وزیر قید خانے سے رہا ہو کر آیا تو بادشاہ نے پہلے سے زیادہ اس کی عزت کی اور خلعت عطا کرنے کے علاوہ اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ غلط فہمی کی وجہ سے اسے ناحق تکلیف پہنچائی۔ وزیر نے کہا کہ حضور خیال نہ فرمائیں۔ مجھے جو تکلیف پہنچی ہے۔ میری تقدیر میں لکھی تھی۔ خدا کی مرضی اور مشیت کے بغیر تو پتا بھی نہیں ہلتا ہے۔
وضاحت
اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے پاک رکھے اور جہاں تک ہوسکے خلق خدا کا خیر خواہ بن کر رہے۔ ایسی زندگی گزارتے ہوئے اگر کسی قسم کی افتاد بھی آ پڑے تو جن لوگوں کے ساتھ احسان کیا ہو وہ اسے تنہا نہیں چھوڑتے۔
🔴 *○ ســـــــــــونے کــا گھـــڑا ○*🔴
*❉ ایک آدمی بڑا امانت دار تھا ، اس نے ایک مرتبہ کسی سے زمین خریدی ، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسے زمین میں سے سونے کا ایک گھڑا ملا ، وہ سونے کا گھڑا لےکر زمین بیچنے والے کے پاس آیا اور اس سے کہا : بھائ صاحب ! میں نے آپ سے جو زمین خریدی تھی ، اس میں سے یہ سونے کا گھڑا نکلا ہے ، آپ اسے لے لیجیے ، میں نے تو آپ سے زمین خریدی ہے ، سونا نہیں خریدا ۔*
*زمین والے نے کہا : میں نے زمین آپ سے ان تمام چیزوں کے ساتھ بیچ دی تھی جو اس زمین کے اندر ہے ۔*
*دونوں آدمی اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے ، اس لیے ان میں سے ہر ایک نے سوچا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سونے کے گھڑے پر میرا حق نہ ہو اور میں اسے صرف سامنے والے کے کہنے سے لے لوں اور قیامت میں اس پر میری پکڑ ہو جائے ، اس لیے دونوں نے بہتر یہی سمجھا کہ ہم کسی سمجھ دار آدمی کی خدمت میں جائیں اور ان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھیں ، وہ جیسا بتائیں اس پر عمل کر لیں ۔*
*چنانچہ وہ دونوں اپنے مسئلے کے حل کے لیے اپنے علاقے کے ایک سمجھ دار آدمی کے پاس پہونچے ۔ سلام اور خیرخیریت کے بعد دونوں نے اپنی بات پیش کی ۔*
*انھوں نے بات سننے کے بعد پوچھا : کیا تم دونوں کی کوئ اولاد ہے ؟ ایک نے کہا : میرا ایک بیٹا ہے ۔ دوسرے نے کہا : میری ایک بیٹی ہے ۔ انھوں نے دونوں آدمیوں سے کہا : تم دونوں اپنے بیٹے اور بیٹی کا ایک دوسرے سے نکاح کر دو اور ان کی ضرورتوں میں اس مال کو خرچ کردو اور جو بچ جائے اسے غریبوں میں تقسیم کردو ۔*
♻محنت سے چونی میں برکت ♻
مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے استاد تھے۔
اورنگ زیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔
جب اورنگ زیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔
اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔
چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔
استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔
استاد کو اپنے ساتھ لے کر اورنگ زیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔رمضان کا سارا مہینہ اورنگ زیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔
عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔
بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی
استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔
اس کے بعد اورنگ زیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔
جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔
مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔
اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔
یہ سن کر اورنگ زیب حیران رہ گئے کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔
انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی
مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔
اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔
مُلا احمد کا لباس بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لیے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ جٹا نہ پاے۔ سکا۔
ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے:
آپ نے جو چونّی دے تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔
میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔
اورنگ زیب یہ سن کرخوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا:
اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔
ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔
اورنگ زیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ “اتم چند” کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔
اسے اورنگ زیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔
اورنگ زیب نے نرمی سے کہا: آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہٹ کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔
سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔
مُلا احمد جیون اور اورنگ زیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔
یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔
اورنگ زیب نے نرمی سے پوچھا:
ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟
اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟
بادشاہ نے کہا : اجازت ہے۔
اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلا دھاربارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔
مکان نیا نیا بنا تھا اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔
میں نے بڑی کوشش کی ، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔
میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟
وہ بولا کیوں نہیں۔
وہ آدمی کام پر لگ گیا۔اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی اذان شروع ہو گئی۔
وہ کہنے لگا:
سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے ،میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔
میں نے اس سے کہا:
اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے ،اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔
وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں۔
لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔
میں نے مجبور ہو کر چونّی دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔
اور اس کے بعد سے آج تک وہ نہ مل سکا۔آج اس بات کو پندرہ برس بیت گئے۔
میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔
اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا:
یہ وہی چونّی ہے۔
کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔
سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔
مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنی محنت سے کمائی ہوگی۔ اورنگ زیب نے کہا : ہاں واقعی‘ اصل بات یہ ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لیے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔
ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
بحوالہ:کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات
🌷ھیرا اور مصری کی ڈلی 🌷
ایک یہودی کے پاس ایک مسلمان ہیرے تراشنے کا کام کرتا تھا۔ جو اپنے کام میں ہنر مند اور حد سے زیادہ ایماندار تھا۔ یہودی اس سنار کی کاریگری سے بے تحاشہ نفع کمانے کے باوجود اُسے مناسب معاوضہ ادا نہ کرتا تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ بمشکل اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتا تھا۔ یونہی کام کرتے کرتے اس نے عمر گزار دی۔ اس کی بیٹی جوان ہو گئی وہ اپنی قلیل آمدنی میں سے کچھ بھی جمع نہ کر سکا۔ بیٹی کی شادی کے لئے سنار کاریگر نے یہودی سے کچھ رقم بطور ادھار مانگی کروڑ پتی یہودی نے رقم دینے سے معذوری ظاہر کر دی۔ سنار اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا ہوا گھر لوٹ آیا۔ رقم ادھار نہ ملنے پر بیوی نے سخت ناراضگی اور طعنوں کے تیر برسا کر الگ استقبال کیا۔ پریشان حال بیچارہ ساری رات سوچتا رہا اب کیا ہو گیا۔ دوسرے دن وہ دکان پر کام کے لئے نہ گیا۔ بعد میں یہودی سنار کے بلانے پر جب وہ دکان پر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ جو اس نے یہودی کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ اس میں قیمتی ہیرا دیکھ کر یہودی سوالیہ نگاہوں سے کاریگر سنار کی طرف دیکھنے لگا۔
کاریگر بولا مالک یہ ہمارا خاندانی ہیرا ہے۔ اسے بیچنے کی اجازت نہیں آپ اسے گروی رکھ کر مجھے کچھ رقم دے دیں۔ میں آپ کو رقم لوٹا کر اپنا ہیرا واپس لے لوں گا۔ یہودی راضی ہو گیا۔
مسلمان کاریگر نے قرضے کی رقم سے بیٹی کی شادی کر دی۔ پھر دن رات کام کر کے قرض کی رقم آہستہ آہستہ ادا کرنے لگ گیا۔ قرضے کی آخری قسط ادا کرنے کے بعد مسلمان کاریگر نے اپنے ہیرے کا مطالبہ کیا ۔ یہودی نے وہ ہیرا لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ ہیرا تراشنے والے کاریگر نے ہیرا لے کر پانی میں رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہیرا گھُل کر ختم ہو گیا۔ ہیرا تراشنے والے کاریگر نے کہا مالک یہ مصری کی ڈلی تھی۔ جسے میں نے اپنے فن سے ہیرے کا اس طرح سے روپ دیا تھا کہ آپ جیسا سنار بھی دھوکہ کھا گیا۔ آپ نے میری عاجزی اور درخواست پر قرضہ نہ دیا۔ جس کی وجہ سے مجھے یوں آپ سے رقم نکلوانی پڑی میں مسلمان ہوں اس لئے بھاگا نہیں آپ کی پائی پائی ادا کر کے سرخرو ہو گیا۔ افسوس کہ آپ نے میری قدر نہ کی۔ اس لئے ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ کاریگر یہودی کو پریشان چھوڑ کر چل دیا۔
📖 (حکایات رومیؒ سے
💗 *ایمانداری نے بادشاہ بنا دیا*💗
بہت پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا ، اس کا کوئی بیٹا نہ تھا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اسے فکر ہوئی کہ اس کے مرنے کے بعد تخت و تاج کا وارث کون ہو گا ؟ لہذا ایک دناس نے اپنے ملک میں اعلان کرایا کہ وہ ایک بچے کو گود لینا چاہتا ہے جو بعد میں اس کے تخت و تاج کا وارث ہو گا ۔ بچے کے انتخاب کے لیے یہ طریقہ بتایا گیا کہ تمام ملک میں سے کچھ بچے منتخب کیئے گئے ہر بچے کو بیج دیا جا ئے گا ۔ جس بچے کے بو ئے ہوئے پودے پر سب سے خوبصورت پھول کھلے گا ، وہ بادشاہ کا وارث بنا دیا جا ئے گا ۔ سونگ چن نامی کا ایک لڑکا تھا ، اس نے بھی بادشاہ سے ایک بیج لیا اور اپنے گھر آکر ایک گملے میں بو دیا ۔ تفصیل سے پڑھئے
وہ ہر روز اسے پانی دیا کر تا تھا ، اسے امید تھی اس کے پودے پر سب سے زیادہ خوبصور ت پھو ل کھلے گا ۔ دن گزر تے گئے مگر گملے میں سے کچھ بھی نکلا ۔ سو نگ چن کو بڑی فکر تھی۔ اس نے ایک اور گملا خریدا اور دور سے جا کر مٹی لایا اور اس بیج کو دو بارہ احتیا ط سے لگایا مگر دو مہینے گزر جانے پر بھی گملے میں سے کوئی پودا نہ نکلا ۔ پلک جھپکتے میں پھولو ں کی نمائش کا دن آ پہنچا ۔ سارے ملک کے بچے شاہی محل میں جمع ہوئے ۔ ہر ایک اپنے ہاتھو ں میں ایک گملا لیے ہوئے تھا ۔ گملوں میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ وہ واقعی بڑے خوبصورت تھے ۔ بادشاہ پھول دیکھنے بچوں کے پاس آیا۔ وہ ہر ایک خوبصورت پھول کو دیکھتا رہا مگر اسے کوئی پسند نہیں آرہا تھا ۔ چلتے چلتے اچانک اس کی نظر سونگ چن پر پڑی جو ایک خالی گملا لیے سر جھکائے کھڑا تھا ۔ سو نگ چن کے پاس جا کر رک گیا اور اس سے پو چھا : ”بیٹے ! تم خالی گملا لیے کیو ں کھڑے ہو ؟“ سونگ چن نے روتے ہوئے کہا : ” میں نے بیج گملے میں ڈالا تھا اور روزانہ پانی بھی دیتا تھا مگر اس سے اب تک کوئی پودا نہیں اگا ، اس لیے خالی گملا لیے کھڑا ہو ں ۔“ بات سن کر باد شاہ ہنس پڑا ، اس نے کہا تم ایک سچے لڑکے ہو، مجھے اپنے تخت و تاج کے لیے تم جیسے سچے لڑکے کی تلاش تھی ، تم ہی اس ملک کے بادشاہ ہو گے ۔ “کیونکہ میں نے سب بچوں کو جو بیج دے تھے وہ ابلے ہوئے تھے ۔ خراب ہو چکے تھے اس لیے ان سے پودے کا اگنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ دوسرے بچے اس لیے خوبصورت پھول کھلانے میں کامیا ب ہو گئے تھے کہ انہوں نے اس خراب کی جگہ اچھے بیج بو ئے تھے مگر سونگ چن نے یہ غلط حرکت نہیں کی تھی اور جھو ٹ سے کا م نہیں لیا تھا ، لہذا اسے سچائی کا انعام مل گیا
No comments:
Post a Comment