🔴دروازے ہر شخص کے لیے کُھلے ہوئے تھے🔴
خلافت اسلامیہ کی ماتحتی میں سکونت اختیار کرنے والے جمیع حاکم (مسلمان) اور غیر مسلم
دونوں کو انصاف میسر تھا,
اپنی رعایا کی فکر ہوا کرتی تھی کہ کہی
ذرا سی غفلت کی وجہ سے رعایا کو ناانصافی میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑے اور قیامت کے روز مشکلات کا سمندر نمودار ہو.
خلافتِ راشدہ کی اہم ترین خصوصیت میں سے ایک یہ تھی کہ اُس میں اپنی اظہارِ رائے کی پوری آزادی تھی ۔
👈حضرت ابوبکر نے اپنی خلافت کی پہلی تقریر میں علیٰ الاعلان کہہ دیا تھا کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو، اگر ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو۔
●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
🔴آپ نے اسے ایک کوڑا لگایا🔴
❉ حضرت عمر فاروقؓ آپ بہت نیک اور انصاف پسند تھے ، آپ کو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے کئ بار جنتی ہونے کی خوش خبری دی ہے ۔
جس زمانے میں آپ خلیفہ تھے ، آپ حکومت کے 👈سب کام ایک متعین وقت پر کیا کرتے تھے ، آپ کے یہاں فیصلہ چکانے کا بھی ایک متعین وقت تھا ۔ ایک شخص ایسے وقت آپ کے پاس آیا جب آپ حکومت کے دوسرے کاموں میں مشغول تھے اور کہنے لگا : فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا ہے آپ چل کر مجھے بدلہ دلوادیجیے ۔
آپ نے اسے ایک کوڑا لگایا اور فرمایا :
👈جب میں اس کام کے لیے بیٹھتا ہوں تو تم لوگ آتے نہیں اور جب دوسرے کاموں میں لگ جاتا ہوں تو آکر کہتے ہو کہ بدلہ دلوادو ۔
وہ شخص تو اتنا سن کر چلا گیا ، لیکن حضرت عمر فاروقؓ کو بڑی شرمندگی ہوئ کہ ایک شخص میرے پاس فریاد لے کر آیا اور میں نے اسے مار دیا ۔ 👈پھر انھوں نے اس آدمی کو بلوایا اور اس کے ہاتھ میں کوڑا دے کر فرمایا : میں نے بغیر کسی غلطی کے تم کو مارا ہے تم بھی مجھے مارو ، اس نے کہا : میں آپ کو معاف کرتا ہوں ۔
پھر گھر آکر حضرت عمرؓ نے دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے آپ کو بُرا بھلا کہنے لگے کہ اے عمر ! تو ذلیل تھا اللہ نے تجھے عزت دی ، تو گمراہ تھا اللہ نے تجھے ہدایت دی اور مسلمانوں کا خلیفہ بنایا ۔ اس کے باوجود اب ایک شخص تجھ سے انصاف مانگتا ہے تو تو اسے کوڑا مارتا ہے ، کل قیامت میں اللہ کو کیا جواب دےگا اور یہ کہہ کر روتے رہے ۔
●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
➰حضرت عمر کا تاریخی فیصلہ... ➰
👈 فورا انصاف ملنا شروع ہوجائے تو امن ہی امن پھیلتا جائے گا، بہترین مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا...
صنعاء نامی علاقے میں
👈 ایک شخص رہتا تھا، وہ کسی کام سے
دوسری.جگہ گیا اور پیچھے اپنی بیوی اور ایک بیٹا چھوڑا، یہ عورت اس بچے کی سوتیلی ماں تھی، عورت نے ایک مرد کو دوست(عاشق) بنا لیا جسکی خبر بیٹے کو لگ گئ تو
👈 اس عورت نے اپنے دوست سے کہا کہ اس لڑکے کو قتل کر دو، دوست نے انکار کر دیا تو عورت نے بھی دوستی سے انکار کر دیا،جس پر دوست نے عورت کا کہنا مان لیا،
خود اور ایک اور ساتھی کو بھی شامل کیا اور عورت اور اسکا نوکر بھی اس منصوبے مین شامل ہوگیا، اس طرح چاروں نے مل کر اس لڑکے کو قتل کر دیا بلکہ اس کے ٹکڑے کرکے خالی کنوے میں پھینک دیا
پھر سوتیلی ماں چلانے لگی،لوگ جمع ہوئے، اسکے بیٹے کو تلاش کیا تو لاش بری اور بدبودار حالت میں ملی، 👈 اس وقت قتل میں ملوث شخص بھی ساتھ کھڑا تھا، یہ منظر دیکھ کر وہ کپکپانے لگا، لوگوں نے پکڑ لیا اور آخر کار اس نے اعتراف کرلیا اور پورا معاملہ سامنے رکھ دیا اور باقی ساتھیوں کا بھی بتا دیا...
👈صنعاء علاقے کے امیر نے یہ واقعہ حضرت عمر کی بارگاہ میں لکھ بھیجا اور حکم پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قتل مین ملوث چاروںڑ مجرموں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ:" والله لو أن أهل صنعاء شركوا في قتله لقتلتهم أجمعين'👈اللہ کی قسم اگر صنعاء کے تمام باشندے اس میں ملوث ہوتے تو میں تمام کو قتل کرتا
(سنن کبری بیھقی روایت نمبر15976)
●▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
سلطان محمود غزنوی کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا "حضور! میری شکایت نہایت سنگین ہے سب کے سامنے پیش نہیں کر سکتا"
سلطان یہ سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور سائل کو خلوت خانے میں لیجا کر پوچھا
سائل نے عرض کیا "حضور! ایک عرصے سے آپ کے 👈بھانجے نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ مسلح ہو کر میرے مکان پر آتا ہے، مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے اور خود جبراً میرے گھر میں گھس کر 👈میری گھر والی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔
👈غزنی کی کوئی سی عدالت سے مجھے انصاف نہ ملا۔ ہر کوئی آپ کے بھانجے کا سُن کر چپ کر جاتا ہے۔
👈اگر آپ نے انصاف کیا تو بہتر ورنہ میں اس معاملے کو اللہ کی عدالت کے سپرد کر کے انصاف کا انتظار کرونگا، جو سب کو انصاف دینے والا ہے۔۔۔!"
سلطان پر اس واقعہ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار آبدیدہ ہو گئے اور کہا "تم سب سے پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے؟، آپکے دربانو کی رکاوٹ نے مجھے آنے نہ دیا،
👈وہ شخص دوبارہ تمہارے گھر آئے مجھے اس کی اطلاع کر دینا، میں اس کو ایسی عبرت ناک سزا دونگا کہ آئندہ دوسروں کو ایسے مظالم کرنیکی کی جرات نہ ہو سکے گی۔"
👈اِس ملاقات کے بعد دو راتیں گزر گئیں مگر سائل نہ آیا۔ سلطان کو تشویش ہوئی کہ نہ معلوم اُس غریب کو کیا حادثہ پیش آیا ہوگا،
👈 تیسری رات کو سائل دوڑتا ہوا پہنچا۔ اطلاع ملتے ہی سلطان نےسواری نکالی اور سائل کے ہمراہ اسکے گھر پہنچ کر اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو سائل نے انہیں بتلایا تھا۔
👈کمرے میں شمع جل رہی تھی۔ سلطان نے شمع گل کر دی اور خود خنجر نکال کر اُس بدکردار کا سر اڑا دیا۔ اس کے بعد شمع روشن کرائی مقتول کا
👈چہرہ دیکھ کر بے ساختہ سلطان کی زبان سے نکلا "الحمدللہ" اور پھر سائل سے کہا کہ پانی لاؤ۔ سائل جلدی سے پانی لایا تو
👈 سلطان نے پانی پی کر سائل سے کہا کہ "اب تم اطمینان سے اپنے گھر میں آرام کرو، انشاءاللہ اب کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی،
یہ کہہ کر سلطانِ محمود غزنوی رخصت ہونا ہی چاہتے تھا کہ سائل نے دامن پکڑ کر عرض کیا "حضورِ 👈والا! آپ نے جس طرح ایک مظلوم کیساتھ انصاف فرمایا حتیٰ کہ اپنی قرابت داری و خون کا بھی خیال نہ کیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اسکی جزائے خیر عطا فرمائے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ، آپ نے پہلے شمع گل کی اور پھر روشن کرا کر مقتول کا سر دیکھ کر "الحمدللہ" فرمایا اور اس کے فوراً بعد پانی طلب فرمایا اسکی کیا وجہ تھی؟"
سلطان نے ہر چند ٹالنا چاہا مگر سائل کے اصرار پر اسے بتلانا ہی پڑا۔۔۔!
میرے عزیز دوستو! فیصلے کرنے والے جج اور حکمران اب کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔؟
٭👈"شمع گل کرنیکا مقصد یہ تھا کہ کہیں روشنی میں اس کا چہرہ دیکھ کر بہن کے خون کی محبت مجھے سزا دینے سے منع نہ کر دے۔
👈اور "الحمدللہ" کہنے کا سبب یہ تھا کہ یہ شخص میرا بھانجا تو دور کی بات ہے، میرا رشتے دار بھی نہیں ہے۔
مقتول اپنے آپ کو میرا بھانجا بتا کر تمہیں شاہی تعلق سے مرعوب کر کے اپنی خواشاتِ نفسانی کو پورا کرنے کے لیے راستہ صاف کرتا رہا۔ خداوندِکریم کا ہزارہا شکر ہے کہ محمود غزنوی کے رشتے داروں کا اس شرمناک بے ہودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے،
👈 اور پانی مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ جب سے تم نے اپنا واقعہ سنایا تھا میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہیں انصاف فراہم نہ کردوں، روٹی پانی میرے اُوپر حرام ہے۔ اب چونکہ میں اپنے فرض سے سبکدوش ہو چکا تھا اور مجھ پر پیاس کا شدید غلبہ تھا اس لیے میں پانی مانگنے پر مجبور ہو گیا۔"
یہ کہہ کر سلطان محمود غزنوی اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے اپنے محل کی جانب روانہ ہو گئے، اور اپنے اِس انصاف کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔
🛑 امن قائم ہوگیا __!!
ایک بادشاہ کہیں جارہا تھا۔ اس نے ایک کمہار کو دیکھا جو کافی سارے گدھے لیکر وہاں س گزر رہا تھا۔ اور تمام گدھے ایک ہی لائن میں چل رہے تھے۔ باد شاہ نے کمہار سے دریافت کیا: تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو۔؟
کمہار نے جواب دیا:
عالی پناہ جو گدھا لائن توڑتا ہے تو میں اسے سزا دیتا ہوں، اس ڈر سے یہ سب لائن میں چلتے ہیں۔ بادشاہ کمہار سے بہت متاثر ہوا اور اس نے کہا کیا آپ میرے ملک میں امن قائم کر سکتے ہو۔؟؟ کمہار نے حامی بھر لی ۔
دارالحکومت آخر بادشاہ نے کمہار کو شہر کا قاضی بنا دیا۔ کمہار کے سامنے ایک چور کا مقدمہ پیش کیا گیا۔ جرم ثابت ہونے پر کمہار نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ جلاد نے یہ سنا تو کمہار کے کان میں کہا جناب یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔ کمہار نے دوبارہ حکم دیا چور کا ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ یہ سن کر وزیر خود کمہار کے پاس آیا اور کان میں کہنے لگا:
جناب یہ اپنا ہی آدمی ہے کچھ خیال کریں۔ یہ سنتے ہیں کمہار نے چور کا ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ نے کا حکم دے دیا۔ کمہار کے صرف ایک فیصلے سے ملک میں امن قائم ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment